سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 182
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ وَكِيعِ بْنِ حُدُسٍ ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ ، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيْنَ كَانَ رَبُّنَا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ خَلْقَهُ؟ قَالَ:" كَانَ فِي عَمَاءٍ مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ، ثَمَّ خَلْقٌ الْعَرْشَ عَلَى الْمَاءِ".
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بادل میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ اوپر ہوا تھی، اور نہ ہی وہاں کوئی مخلوق تھی، (پھر پانی پیدا کیا) اور اس کا عرش پانی پہ تھا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 12 (3109)، (تحفة الأشراف: 11176)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/11، 12) (ضعیف)» (حدیث کی سند میں مذکور راوی وکیع بن حدس مجہول الحال ہیں، نیزملاحظہ ہو: ظلال الجنة: 612)
وضاحت: ۱؎: حدیث میں «عماء» کا لفظ آیا ہے جس کے معنی اگر «بالمد» ہو تو «سحاب رقیق» (بدلی) کے ہوتے ہیں، اور «بالقصر» ہو تو اس کے معنی «لاشیء» کے ہوتے ہیں، بعض اہل لغت نے «العماء» بالقصر کے معنی ایسے امر کے کئے ہیں جو عقل اور ادراک سے ماوراء ہو، حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لئے صفت فوقیت و علو ثابت ہوئی، کیفیت مجہول ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 182 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث182
اردو حاشہ: (1) (مَا تَحْتَهُ هَوَاءٌ، وَمَا فَوْقَهُ هَوَاءٌ،)
ترجمہ بعض علماء نے یوں کیا ہے جس کے نیچے بھی ہوا تھی، اور اوپر بھی۔
اس صورت میں ما موصولہ ہو گا۔
لیکن محمد فواد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ کے حاشیے میں لکھا ہے کہ ما نافیہ ہے، موصولہ نہیں۔
ہم نے ترجمہ اس قول کے مطابق کیا گیا ہے۔
(2)
كَانَ فِي عَمَاءٍ (اللہ تعالیٰ عماء میں تھا)
اس کے ایک معنی تو بادل ہیں۔
ایک معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اس سے مراد ایسی چیز ہے جو انسانی فہم سے ماوراء ہو، یعنی اس سوال کا جواب عقل سے ماوراء ہے۔
بہرحال ان توضیحات و تاویلات کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب حدیث قابل استدلال ہو۔
جیسا کہ ہمارے محقق نے اس حدیث کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
لیکن اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، اس میں تاویل کی ضرورت نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 182
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3109
´سورۃ ہود سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابورزین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے کہاں تھا؟ آپ نے فرمایا: ” «عماء» میں تھا، نہ تو اس کے نیچے ہوا تھی نہ ہی اس کے اوپر۔ اس نے اپنا عرش پانی پر بنایا ۱؎“، احمد بن منیع کہتے ہیں: (ہمارے استاد) یزید نے بتایا: «عماء» کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3109]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
عماء:
اگر بالمد ہو تو اس کے معنی سحاب رقیق (بدلی) کے ہیں،
اور اگر بالقصر ہو تو اس کے معنی ”لاشیٔ“ کے ہوتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3109