جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دنوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے: ”کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، ناکہ جبریل علیہ السلام کا، کلام اللہ کو مخلوق کا کلام کہنا گمراہوں کا کام ہے۔
It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said:
The Messenger of Allah used to appear before the people during the Hajj season and say: 'Is there any man who can take me to his people, for the Quraish have prevented me from conveying the speech (i.e. the Message) of my Lord.'"
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث201
اردو حاشہ: (1) لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کا مطلب ہے کہ حج کے ایام میں عرب کے ہر علاقے سے لوگ مکے آتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید رکھتے تھے کہ شاید ان میں سے کوئی شخص یا قبیلہ ایسا ہو جو تبلیغ کے کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے اور مخالفین کو مخالفت سے منع کرے تاکہ لوگ حق کو سمجھ کر قبول کر سکیں۔
(2) دنیوی معاملات میں، اسباب کی حد تک، کسی سے تعاون اور مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرَّ وَالتَّقْوىٰ﴾(المائدہ: 2) ”نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔“
(3) اس سے اللہ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے اور یہ کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جبرئیل ؑ کا یا کسی اور کا نہیں۔ اس سے معتزلہ کی تردید ہو جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 201
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4734
´قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو موقف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے: ”کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4734]
فوائد ومسائل: 1: اللہ عزوجل صفت کلا م سے موصوف ہے جس کا رسول ؐ نے اپنی اولین دعوت میں اظہار فرمایا اور لوگوں نے بھی اسکے ظاہری معنی ہی سمجھے۔ اس پر ہمارا ایمان ہے، مگر کلام کرنے کی کیفیت سے ہم آگاہ نہیں اور قرآن مجید بھی اسی کا کلام ہے جو جبرائیل امین ؑلے کر آئے اور حضرت محمد رسول ؐ کے سینے میں اتارا، مسلمان اسے پڑھتے، یاد کرتے اور مصحف کے اوراق میں لکھتے ہیں۔
2: اللہ تعالی کی ذات جس طرح قدیم ہے، اسی طرح اس کی تمام صفات بھی قدیم ہیں، بنا بریں قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے، تو یہ بھی اس کی قدیم اور غیر حادث صفت ہوئی۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین ؒ اسے غیر مخلوق کہتے تھے اور معتزلہ اسے مخلوق قرار دیتے تھے۔ اس مسئلے میں امام احمد ؒ کی استقامت اور اس کی خاطر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا، مشہور معروف ہے۔
3: عالم اسباب میں رسول ؐ کو بھی افراد کے تعاون کی ضرورت تھی جو اس تبلیغ حق میں آپ ؐ کے معاون بنتے جو بالآخر مہاجرین وانصار کی صورت میں آپ کو مل گئے۔ اسی طرح ہر داعی کی بھی ضرورت ہے۔ سوسعادت مند ہیں وہ عظیم لو گ ہیں جو داعیان حق کے دست وبازوبنتے ہیں۔
4: ظاہری اسباب کے مطابق ایک دوسرے سے مدد مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا فرض ہے، اسی لیے نبی کریم ؐ نے بھی تبلیغ ودعوت کے کام میں لوگوں سے تعاون طلب کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا۔ البتہ ماورائے اسباب طریقے سے کسی سے مدد طلب کرنا شرک ہے، کیو نکہ اسطرح اللہ تعالئ کے سوا کوئی بھی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4734