سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
35. باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
Chapter: Concerning what the Jahmiyyah denied (i.e., seeing Allah in the Hereafter, etc.)
حدیث نمبر: 201
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن رجاء ، حدثنا إسرائيل ، عن عثمان يعني ابن المغيرة الثقفي ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس في الموسم، فيقول:" الا رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني ان ابلغ كلام ربي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عُثْمَانَ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ الثَّقَفِيَّ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْسِمِ، فَيَقُولُ:" أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے دنوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے؟ اس لیے کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے ۱؎۔

وضاحت:
۱؎: حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، ناکہ جبریل علیہ السلام کا، کلام اللہ کو مخلوق کا کلام کہنا گمراہوں کا کام ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/السنة 22 (4734)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 24 (2925)، (تحفة الأشراف: 2241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/322، 390)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 5 (3397) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said: The Messenger of Allah used to appear before the people during the Hajj season and say: 'Is there any man who can take me to his people, for the Quraish have prevented me from conveying the speech (i.e. the Message) of my Lord.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   جامع الترمذي2925جابر بن عبد اللهيعرض نفسه بالموقف فقال ألا رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي
   سنن أبي داود4734جابر بن عبد اللهيعرض نفسه على الناس في الموقف فقال ألا رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي
   سنن ابن ماجه201جابر بن عبد اللهيعرض نفسه على الناس في الموسم فيقول ألا رجل يحملني إلى قومه فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 201 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث201  
اردو حاشہ:
(1)
لوگوں سے ملاقاتیں کرنے کا مطلب ہے کہ حج کے ایام میں عرب کے ہر علاقے سے لوگ مکے آتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امید رکھتے تھے کہ شاید ان میں سے کوئی شخص یا قبیلہ ایسا ہو جو تبلیغ کے کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرے اور مخالفین کو مخالفت سے منع کرے تاکہ لوگ حق کو سمجھ کر قبول کر سکیں۔

(2)
دنیوی معاملات میں، اسباب کی حد تک، کسی سے تعاون اور مدد مانگنا توحید کے منافی نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرَّ وَالتَّقْوىٰ﴾ (المائدہ: 2)
 نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔

(3)
اس سے اللہ کی صفت کلام کا ثبوت ملتا ہے اور یہ کہ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جبرئیل ؑ کا یا کسی اور کا نہیں۔
اس سے معتزلہ کی تردید ہو جاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 201   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4734  
´قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو موقف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4734]
فوائد ومسائل:
1: اللہ عزوجل صفت کلا م سے موصوف ہے جس کا رسول ؐ نے اپنی اولین دعوت میں اظہار فرمایا اور لوگوں نے بھی اسکے ظاہری معنی ہی سمجھے۔
اس پر ہمارا ایمان ہے، مگر کلام کرنے کی کیفیت سے ہم آگاہ نہیں اور قرآن مجید بھی اسی کا کلام ہے جو جبرائیل امین ؑلے کر آئے اور حضرت محمد رسول ؐ کے سینے میں اتارا، مسلمان اسے پڑھتے، یاد کرتے اور مصحف کے اوراق میں لکھتے ہیں۔

2: اللہ تعالی کی ذات جس طرح قدیم ہے، اسی طرح اس کی تمام صفات بھی قدیم ہیں، بنا بریں قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے، تو یہ بھی اس کی قدیم اور غیر حادث صفت ہوئی۔
اسی لیے امام احمد بن حنبل اور دیگر محدثین ؒ اسے غیر مخلوق کہتے تھے اور معتزلہ اسے مخلوق قرار دیتے تھے۔
اس مسئلے میں امام احمد ؒ کی استقامت اور اس کی خاطر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا، مشہور معروف ہے۔

3: عالم اسباب میں رسول ؐ کو بھی افراد کے تعاون کی ضرورت تھی جو اس تبلیغ حق میں آپ ؐ کے معاون بنتے جو بالآخر مہاجرین وانصار کی صورت میں آپ کو مل گئے۔
اسی طرح ہر داعی کی بھی ضرورت ہے۔
سوسعادت مند ہیں وہ عظیم لو گ ہیں جو داعیان حق کے دست وبازوبنتے ہیں۔

4: ظاہری اسباب کے مطابق ایک دوسرے سے مدد مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا فرض ہے، اسی لیے نبی کریم ؐ نے بھی تبلیغ ودعوت کے کام میں لوگوں سے تعاون طلب کیا اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تعاون کیا۔
البتہ ماورائے اسباب طریقے سے کسی سے مدد طلب کرنا شرک ہے، کیو نکہ اسطرح اللہ تعالئ کے سوا کوئی بھی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4734   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.