Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 199
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي النَّوَّاسُ بْنُ سَمْعَانَ الْكِلَابِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ قَلْبٍ إِلَّا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ إِنْ شَاءَ أَقَامَهُ، وَإِنْ شَاءَ أَزَاغَهُ"، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَا مُثَبِّتَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قُلُوبَنَا عَلَى دِينِكَ"، قَالَ:" وَالْمِيزَانُ بِيَدِ الرَّحْمَنِ يَرْفَعُ أَقْوَامًا، وَيَخْفِضُ آخَرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ہر شخص کا دل اللہ تعالیٰ کی دونوں انگلیوں کے درمیان ہے، اگر وہ چاہے تو اسے حق پر قائم رکھے اور چاہے تو اسے حق سے منحرف کر دے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے: اے دلوں کے ثابت رکھنے والے! تو ہمارے دلوں کو اپنے دین پر ثابت رکھ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اور ترازو رحمن کے ہاتھ میں ہے، کچھ لوگوں کو بلند کرتا ہے اور کچھ کو پست، قیامت تک (ایسے ہی کرتا رہے گا)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11715، ومصباح الزجاجة: 71)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/182) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 199 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث199  
اردو حاشہ:
(1)
مصنف اس حدیث کو اللہ تعالیٰ کی صفت اصابع (انگلیوں)
کے اثبات کے لیے لائے ہیں، اس قسم کی تمام حدیثوں میں سلف کا مسلک یہی ہے کہ ان پر بلا تشبیہ ایمان لانا چاہیے۔

(2)
ہدایت، اللہ کے ہاتھ میں ہے اس لیے اس سے ہدایت اور ثابت قدمی کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔

(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت قدمی کے لیے دعا کی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دین کے داعی کو قدم قدم پر جو مشکلات پیش آتی ہیں، ان میں اسے اللہ کی نصرت و توفیق کی ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس میں اپنے عجز اور احتیاج کا اظہار ہے جو عبادت کی بنیادی اور مرکزی چیز ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی عبادت کی ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ امت بھی اس سے سبق حاصل کرے اور نبی علیہ السلام کی اقتدا کرتے ہوئے ہر امتی اللہ سے استقامت کی دعا کرتا رہے۔

(4)
عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے دنیا میں سربلندی، قوت، شان اور ہدایت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے پستی، ذلت اور گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اور یہ بات اللہ ہی کو معلوم ہے کہ کون سا فرد یا گروہ کس درجہ کی عزت یا ذلت کا مستحق ہے، یہ پیمانہ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔

(5)
بلندی اور پستی، عزت اور ذلت وغیرہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ سے انسان کے اپنے اعمال کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے، بعض اوقات یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور اس کے مطابق انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں درجات کا مستحق ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 199