(أبواب كتاب السنة) (ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت) 46. بَابُ: مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ فَكَتَمَهُ باب: علم چھپانے پر وارد وعید کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی علم دین یاد رکھتے ہوئے اسے چھپائے، تو اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 9 (3658)، سنن الترمذی/ العلم 3 (2649)، (تحفة الأشراف: 14196)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/ 263، 305، 344، 353، 495، 499، 508) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن
اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔
وضاحت: (یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمید اثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (۱۴۷) پر موجود ہے) قال الشيخ الألباني: حسن
اس سند سے بھی عمارہ بن زاذان نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔
وضاحت: (یہ سند شیخ مشہور بن حسن سلمان کے نسخے میں نہیں ہے، بلکہ یہ شیخ علی حسن عبدالحمید اثری کے نسخے میں صفحہ نمبر (۱۴۷) پر موجود ہے) قال الشيخ الألباني: حسن
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کی قسم! اگر قرآن کریم کی دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی بھی کوئی نہ حدیث بیان کرتا، اور دو آیتیں یہ ہیں: «إن الذين يكتمون ما أنزل الله من الكتاب» إلى آخر الآيتين ”بیشک جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلہ میں معمولی قیمت لیتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، قیامت کے دن اللہ نہ تو ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کو معاف کرے گا، اور ان کو سخت عذاب پہنچے گا، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے خرید لیا اور عذاب کو مغفرت کے بدلے، پس وہ کیا ہی صبر کرنے والے ہیں جہنم پر“ (سورة البقرة: 174-175) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 42 (118)، المزارعة 21 (2350)، الاعتصام 22 (7354)، صحیح مسلم/الفضائل 35 (2492)، سنن النسائی/الکبری (5878)، (تحفة الأشراف: 13957)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/240، 274) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آیت کا سیاق یہ ہے: «إن الذين يكتمون ما أنزل الله من الكتاب ويشترون به ثمنا قليلا أولئك ما يأكلون في بطونهم إلا النار ولا يكلمهم الله يوم القيامة ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم (۱۷۴) أولئك الذين اشتروا الضلالة بالهدى والعذاب بالمغفرة فمآ أصبرهم على النار (۱۷۵)» (سورة البقرة: 174-175)، یہ آیات اگرچہ یہود کے متعلق ہیں، جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی توراۃ میں موجود صفات چھپا لیں، مگر قرآن کے عمومی سیاق کا حکم شریعت کے احکام کو چھپانے والوں کو شامل ہے، علماء کے یہاں مشہور قاعدہ ہے: «العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب» یعنی: ”اصل اعتبار الفاظ کے عموم سے استدلال کا ہے، سبب نزول سے وہ خاص نہیں ہے“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس امت کے خلف (بعد والے) اپنے سلف (پہلے والوں) کو برا بھلا کہنے لگیں، تو جس شخص نے اس وقت ایک حدیث بھی چھپائی اس نے اللہ کا نازل کردہ فرمان چھپایا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3051، ومصباح الزجاجة: 108) (ضعیف جدًا)» (سند میں '' حسین بن أبی السر ی '' سخت ضعیف ہیں، اور عبد اللہ بن السری صدق وزہد سے متصف ہو تے ہوئے عجائب ومناکیر روایت کرنے میں منفرد ہیں، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1507)
وضاحت: ۱؎: یعنی وہ «إن الذين يكتمون ما أنزل الله» کی آیت جو اوپر گذری ہے اس کا مستحق ٹھہرا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس شخص سے دین کے کسی مسئلہ کے متعلق پوچھا گیا، اور باوجود علم کے اس نے اسے چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1707، ومصباح الزجاجة: 109) (صحیح)» (اس کی سند میں یوسف بن ابراہیم ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 223، 224)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے کوئی ایسا علم چھپایا جس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کے دینی امور میں نفع دیتا ہے، تو اللہ اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4127، ومصباح الزجاجة: 110) (ضعیف جدًا)» (سند میں محمد بن داب سخت ضعیف ہیں، اور أبوزرعہ وغیرہ نے تکذیب کی ہے، اور وضع حدیث سے منسوب کیا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا گیا، اور جاننے کے باوجود اس نے اس کو چھپایا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14477) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|