سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 190
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ الْحَرَامِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: لَمَّا قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ يَوْمَ أُحُدٍ، لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا جَابِرُ أَلَا أُخْبِرُكَ مَا قَالَ اللَّهُ لِأَبِيكَ؟" وَقَالَ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ:" يَا جَابِرُ مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتُشْهِدَ أَبِي وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ:" أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ"؟ قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَكَلَّمَ أَبَاكَ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا" عَبْدِي تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ"، قَالَ: يَا رَبِّ تُحْيِينِي فَأُقْتَلُ فِيكَ ثَانِيَةً، فَقَالَ الرَّبُّ سُبْحَانَهُ:" إِنَّهُ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يَرْجِعُونَ"، قَالَ: يَا رَبِّ فَأَبْلِغْ مَنْ وَرَائِي، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن عمرو بن حرام غزوہ احد کے دن قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: ”جابر! کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے کیا کہا ہے؟“، (اور یحییٰ بن حبیب راوی نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! میں تمہیں کیوں شکستہ دل دیکھتا ہوں؟“)، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے گئے، اور اہل و عیال اور قرض چھوڑ گئے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے ملاقات کے وقت کہا؟“، جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی ہاں ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر حجاب کے کلام نہیں کیا، لیکن تمہارے والد سے بغیر حجاب کے کلام کیا، اور فرمایا: میرے بندے! مجھ سے آرزو کر میں تجھے عطا کروں گا، اس پر انہوں نے کہا: میرے رب! میری آرزو یہ ہے کہ تو مجھے زندہ کر دے، اور میں تیری راہ میں دوبارہ قتل کیا جاؤں، تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: یہ بات تو پہلے ہی ہماری جانب سے لکھی جا چکی ہے کہ لوگ دنیا میں دوبارہ واپس نہیں لوٹائے جائیں گے ۱؎، انہوں نے کہا: میرے رب! ان لوگوں کو جو دنیا میں ہیں میرے احوال کی خبر دیدے“، انہوں نے کہا: اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» ”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس روزی پاتے ہیں“ (سورة آل عمران: ۱۶۹) ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2287، ومصباح الزجاجة: 70)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن 4 (3010) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2800) (حسن) (ملاحظہ ہو: السنة لابن أبی عاصم: 615، 616)»
وضاحت: ۱؎: اور جب شہیدوں کو دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جاتا تو دوسرے کس کو لوٹنے کی اجازت ہو گی، پتہ چلا کہ جو لوگ انتقال کر گئے وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آئیں گے۔ ۲؎: اس سے پتہ چلا کہ جو لوگ شہید ہو گئے ان کی زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے، اور نہ وہ دنیا میں زندہ ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 190 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث190
اردو حاشہ:
(1)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے۔
اس طرح ہر قائد اور سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کی خوشی غمی کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اپنائیت کا سلوک کرنا چاہیے۔
(2)
فوت ہونے والے کے پسماندگان کو ایسے انداز سے تسلی تشفی دینی چاہیے جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔
ایسا انداز اختیار کرنے اور ایسی بات کہنے سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے اس کے غم میں اضافہ ہو اور اسے تکلیف ہو۔
(3)
اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔
(4)
فوت ہونے کے بعد انسان عالم آخرت میں داخل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں اسے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل ہو سکتا ہے۔
(5)
اس حدیث سے شہداء کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔
(6)
حضرت عبداللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کا مقام عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے خود ان کی خواہش دریافت کی۔
(7)
شہادت کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ شہید دوبارہ اس کے حصول کے لیے دنیا میں آنے کی خواہش رکھتا ہے۔
شہید کے علاوہ کوئی اور جنتی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش نہیں رکھتا۔
(8)
فوت ہونےوالوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے اور اس سے ”عقیدہ تناسخ ارواح“ کا بھی رد ہوتا ہے۔
(9)
شہداء کی زندگی بھی دوسرے لوگوں کی طرح برزخی زندگی ہے، دنیوی نہیں۔
اس زندگی میں وہ جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں جنت میں کھاتی پیتی اور اس کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔ (صحيح مسلم، الامارة، باب بيان ان ارواح الشهداء في الجنة، حديث: 1887)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 190
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2800
´اللہ کی راہ میں شہادت کی فضیلت۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب جنگ احد میں (ان کے والد) عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد سے جو فرمایا ہے کیا میں تمہیں وہ نہ بتاؤں“؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی سے بات کی تو پردہ کے پیچھے سے لیکن تمہارے والد سے آمنے سامنے بات کی، اور کہا: اے میرے بندے! مجھ سے اپنی خواہش کا اظہار کرو، میں تجھے عطا کروں گا، انہوں نے کہا: اے میرے رب! تو مجھے دوبارہ زندہ کر دے کہ م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2800]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فوت ہونے والے کے پسماندگان کو تسلی وتشفی دینی چاہیے اورا یسی باتیں کہنی چاہیئں جن سے ان کا غم ہلکا ہو،
(2)
وفات کے بعد اللہ تعالی نیک بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے۔
(3)
جنت میں الله کا دیدار ممکن ہے۔
اور جنتیوں کو اپنے اپنے درجات کے مطابق کم یا زیادہ وقفے سے نعمت حاصل ہوگی۔
(4)
فوت ہوجانے والے لوگ یا شہید دوبارہ دنیا میں نہیں آ سکتے لہٰذا اس قسم کی حکایتوں میں کوئی صداقت نہیں کہ فلاں صحابی یا شہید یا ولی نے اپنی وفات کے بعد فلاں صاحب سے ملاقات کی اور فلاں معاملے میں اس کی رہنمائی کی۔
(5)
اس واقعے میں حضرت عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہ کے جنتی اور بلند درجات کا حامل ہونے کی بشارت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2800
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3010
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: ”جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3010]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
”جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے تم ان کو مردہ نہ سمجھو،
بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس،
روزی پاتے ہیں“ (آل عمران: 169)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3010