باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب 12. بَابُ: فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو! میں ہر خلیل (جگری دوست) کی دلی دوستی سے بری ہوں، اور اگر میں کسی کو خلیل (جگری دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا، بیشک تمہارا یہ ساتھی اللہ کا خلیل (مخلص دوست ہے)“ ۱؎۔ وکیع کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھی سے اپنے آپ کو مراد لیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 1 (2383)، سنن الترمذی/المنا قب 16 (3655)، (تحفة الأشراف: 9498)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/377، 389، 389، 433، 408) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: خلیل ایسا جگری دوست ہے کہ جس کے سوا دل میں کسی کی جگہ نہ رہے، اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسا خلیل (جگری دوست) میرا اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت نے ذرہ برابر جگہ نہ چھوڑی کہ اب کسی کی محبت دل میں آ سکے، اور اگر ذرا بھی دل میں گنجائش ہوتی تو میں ابوبکر کو اس میں اس خصوصی دوستی والے جذبہ میں جگہ دیتا، اس حدیث سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی، اور معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ رسول اللہ ﷺ کے جگری دوستی اور خصوصی محبت کے قابل اور مستحق ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے فائدہ پہنچایا“۔ ابوہریرہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال سب صرف آپ ہی کا ہے، اے اللہ کے رسول! ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12528، ومصباح الزجاجة: 38)، وأخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 16 (3655)، مسند احمد (2/253) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال و دولت اور جاہ و شخصیت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی، چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدائے اسلام میں اور مسلمانوں کی فقر و مسکنت اور قلت تعداد کی حالت میں چالیس ہزار درہم مسلمانوں کی تائید و تقویت میں خرچ کئے، اور قریش سے سات غلاموں کو آزاد کرایا، بلال اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہما انہی میں سے تھے، اور آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ اس پر معترض ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں اللہ عز وجل کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں اور آیت: «فأما من أعطى واتقى (۵) وصدق بالحسنى (۶)» (سورة الليل: 5-6) اسی باب میں نازل ہوئی۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسلام کی خدمت، کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور اہل علم و دین کی تائید و تقویت میں حصہ لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان پرور زندگی میں ہمارے لئے بڑی عبرت اور موعظت کا سامان ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ المنا قب 16 (3666)، (تحفة الأشراف: 10035)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ادھیڑ عمر والے جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر ہو کر مرے ہیں کیونکہ جنت میں کوئی ادھیڑ عمر کا نہیں ہو گا سب جوان ہوں گے، «كهول» جمع ہے «كهل» کی، اور «كهل» مردوں میں وہ ہے جس کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک، اور اس سے مراد یہ ہے کہ جو مسلمان اس عمر تک پہنچ کر انتقال کر گئے ہیں یہ دونوں یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جنت میں ان کے سردار ہوں گے، یا کہولت سے کنایہ کیا عقل و شعور اور فہم و فراست کی پختگی پر یعنی جو دانا اور فہمیدہ لوگ جنت میں ہوں گے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہوں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر نبی، نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور انبیاء کے بعد شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) سب سے افضل ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر نبی معصوم نہیں ہو سکتا اور معلوم ہوا کہ نبی کے بعد خلافت کے مستحق یہی ہیں اس لئے کہ جب جنت میں یہ سردار ہوں گے تو دنیا کی سرداری میں کیا شک رہا، مگر واقع میں نبی اکرم ﷺ نے انہیں جنتیوں کا سردار فرمایا ہے، جہنمیوں کا نہیں، اس لئے گمراہ اور جاہل ان کی سرداری کا انکار کرتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلند درجے والوں کو (جنت میں) نیچے درجہ والے دیکھیں گے جس طرح چمکتا ہوا ستارہ آسمان کی بلندیوں میں دیکھا جاتا ہے، اور ابوبکرو عمر بھی انہیں میں سے ہیں، اور ان میں سب سے فائق و برتر ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المنا قب 16 (3658)، (تحفة الأشراف: 4206)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الحروف والقراء ات 1 (3987)، مسند احمد (3/27، 72، 93، 98) (صحیح)» (اس سند میں عطیة العوفی ضعیف ہیں، امام ترمذی نے اسے حسن کہاہے، اور سنن ابی داود کا سیاق اس سے مختلف ہے (3978)، شیخ البانی نے شواہد کی بناء پر اس کی تصحیح کی ہے، صحیح ابن ماجہ: 96)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) کے درجات کی بلندی کا علم ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نہیں جانتا کہ کب تک میں تمہارے درمیان رہوں، پس میرے بعد ان دونوں کی پیروی کرنا“، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کی جانب اشارہ کیا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 16 (3662، 3663)، (تحفة الأشراف: 3317)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/382، 385، 399، 402) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کو (وفات کے بعد) ان کی چارپائی پہ لٹایا گیا تو لوگوں نے انہیں گھیر لیا، اور دعا کرنے لگے، یا کہا: تعریف کرنے لگے، اور جنازہ اٹھائے جانے سے پہلے دعا کرنے لگے، میں بھی انہیں میں تھا، تو مجھے صرف اس شخص نے خوف زدہ کیا جو لوگوں کو دھکا دے کر میرے پاس آیا، اور میرا کندھا پکڑ لیا، میں متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، پھر بولے: میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں چھوڑا جس کا عمل آپ کے عمل سے زیادہ مجھے عزیز و پیارا ہو کہ میں اس عمل کو لے کر اللہ سے ملوں، اور قسم ہے اللہ کی! میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ رکھے گا، اس وجہ سے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر فرماتے ہوئے سنتا تھا: ”میں اور ابوبکرو عمر گئے، میں اور ابوبکرو عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکرو عمر نکلے“، لہٰذا میں آپ کے ان باتوں کی وجہ سے یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ (جنت میں) رکھے گا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 4 (3677)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 2 (2389)، (تحفة الأشراف: 10193)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/112) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے عمر رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت معلوم ہوئی، اور معلوم ہوا کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان سے خاص محبت تھی، وہ ان کے جنازے کو گھیرے ہوئے تھے، اور ان کے لئے دعا ئے خیر کر رہے تھے، اور معلوم ہوا کہ علی اور شیخین (ابوبکر و عمر) رضی اللہ عنہم کے دلوں میں کسی طرح کا بغض و حسد اور کینہ نہ تھا جیسا کہ روافض اور شیعہ وغیرہ کا خیال باطل ہے، اور معلوم ہوا کہ شیخین نبی کریم ﷺ کے دوست اور رفیق تھے کہ اکثر آپ ﷺ نشست و برخاست اور جمیع حالات میں ان کی معیت اور رفاقت بیان فرماتے تھے، اور مرنے کے بعد بھی قیامت تک تینوں ایک ہی جگہ یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں مدفون ہیں، اور جنت میں بھی بفضل الٰہی ساتھ ساتھ ہوں گے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرو عمر کے درمیان نکلے، اور فرمایا: ”ہم اسی طرح قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 16 (3669)، (تحفة الأشراف: 7499) (ضعیف)» (سند میں راوی سعید بن مسلمہ منکر الحدیث ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکرو عمر انبیاء و رسل کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں جنت کے ادھیڑ لوگوں کے سردار ہوں گے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11819، ومصباح الزجاجة: 37) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ“، عرض کیا گیا: مردوں میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے والد (ابوبکر)“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/المناقب 63 (3890)، (تحفة الأشراف: 774) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے بڑے چہیتے اور محبوب تھے، اور جو آپ ﷺ کا چہیتا اور محبوب ہو وہ اللہ تعالیٰ کا چہیتا اور محبوب ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|