باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب 16. بَابُ: فَضْلِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ باب: زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ قریظہ پر حملے کے دن فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم (یعنی یہود بنی قریظہ) کی خبر لائے؟، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے؟“، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، یہ سوال و جواب تین بار ہوا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کے حواری (خاص مددگار) ہوتے ہیں، اور میرے حواری (خاص مددگار) زبیر ہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 41 (2846)، صحیح مسلم/فضائل الصحابہ 6 (2415)، سنن الترمذی/المنا قب 25 (3845)، (تحفة الأشراف: 3020)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/89، 102، 3/307) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ واقعہ غزوہ احزاب کا ہے جو سن (۵) ہجری میں واقع ہوا، جب کفار قریش قبائل عرب اور خیبر کے یہودی سرداروں کے ساتھ دس ہزار کی تعداد میں مدینہ پر چڑھ آئے، نبی اکرم ﷺ نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے خندق کھدوائی، اس لئے اس غزوہ کو غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے، مسلمان بڑی کس مپرسی کے عالم میں تھے، اور یہود بنی قریظہ نے بھی معاہدہ توڑ کر کفار مکہ کا ساتھ دیا، ایک دن بہت سردی تھی، نبی اکرم ﷺ نے صحابہ سے یہ چاہا کہ کوئی اس متحدہ فوج کی خبر لائے جن میں بنی قریظہ بھی شریک تھے، لیکن سب خاموش رہے، اور اس مہم پر زبیر رضی اللہ عنہ گئے، اور ان کو سردی بھی نہ لگی، اور خبر لائے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حملہ آوروں پر بارش اور ٹھنڈی ہوا بھیج دی ہے جس سے ان کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں، اور لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، زبیر رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ احد ۱؎ کے دن میرے لیے اپنے ماں باپ دونوں کو جمع کیا ۲؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل الصحابة 13 (3720)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 6 (2416)، سنن الترمذی/المناقب 23 (3743)، (تحفة الأشراف: 3622)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/164، 166) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تخریج میں مذکورہ مراجع میں یہ ہے کہ واقعہ غزوہ احزاب ”خندق“ کا ہے، اس لئے ”احد“ کا ذکر یہاں خطا اور وہم کے قبیل سے ہے۔ ۲؎: یعنی کہا: ”میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں“، یہ زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں بہت بڑا اعزاز ہے، آگے حدیث میں یہ فضیلت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہے، لیکن وہاں پر علی رضی اللہ عنہ نے اس فضیلت کو صرف سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے، اس میں تطبیق کی صورت اس طرح ہے کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کے علم کے مطابق تھا، ورنہ صحیح احادیث میں یہ فضیلت دونوں کو حاصل ہے، واضح رہے کہ ابن ماجہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی یہ بات غزوہ احد کے موقع پر منقول ہوئی ہے، جب کہ دوسرے مراجع میں یہ غزوہ احزاب کی مناسبت سے ہے، اور آگے آ رہا ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لئے آپ ﷺ نے یہ غزوہ احد کے موقع پر فرمایا تھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: عروہ! تمہارے نانا (ابوبکر) اور والد (زبیر) ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: «الذين استجابوا لله والرسول من بعد ما أصابهم القرح» ”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہا ”(سورة آل عمران: 172)، یعنی ابوبکر اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16939)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي 16 (4077)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 6 (2418)، مسند احمد (1/164، 166) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پوری آیت یوں ہے: «الذين استجابوا لله والرسول من بعد مآ أصابهم القرح للذين أحسنوا منهم واتقوا أجر عظيم» یعنی: ”جن لوگوں نے زخمی ہونے کے بعد اللہ اور رسول کا کہنا مانا، جو لوگ ان میں نیک و صالح اور پرہیز گار ہوئے ان کو بڑا ثواب ہے“ (سورة آل عمران: 172)۔ اس آیت کا شان نزول امام بغوی نے یوں ذکر کیا ہے کہ جب ابو سفیان اور کفار مکہ جنگ احد سے واپس لوٹے، اور مقام روحا میں پہنچے تو اپنے لوٹنے پر نادم و شرمندہ ہوئے اور ملامت کی، اور کہنے لگے کہ ہم نے محمد کو نہ قتل کیا، نہ ان کی عورتوں کو قید کیا، پھر ان لوگوں نے یہ طے کیا کہ دوبارہ واپس چل کر مسلمانوں کا کام تمام کر دیا جائے، جب یہ خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے اپنی طاقت کے اظہار کے لئے صحابہ کرام کی ایک جماعت اکٹھا کی، اور ابوسفیان اور کفار مکہ کے تعاقب میں روانہ ہونا چاہا، اور اعلان کر دیا کہ ہمارے ساتھ غزوہ احد کے شرکاء کے علاوہ اور کوئی نہ نکلے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اجازت طلب کی تو آپ نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی، نبی کریم ﷺ، ابوبکر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد، سعید، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود، حذیفہ بن الیمان، اور ابوعبیدہ بن جراح وغیرہم کی معیت میں ستر آدمیوں کو لے کر روانہ ہوئے، اور حمراء الأسد (مدینہ سے بارہ میل (۱۹ کلومیٹر) کے فاصلے پر ایک مقام) پر پہنچے، اس کے بعد بغوی رحمہ اللہ نے یہی روایت ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے، غرض وہاں معبد خزاعی نامی ایک آدمی تھا جو نبی کریم ﷺ سے محبت رکھتا تھا، اور وہاں کے بعض لوگ ایمان لا چکے تھے تو معبد نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو آپ کے اصحاب کے زخمی ہونے کا بہت رنج ہوا،غرض وہ وہاں سے ابوسفیان کے پاس آیا، اور ان کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شجاعت کی خبر دی، ابوسفیان اور ان کے ساتھی اس خبر کو سن کر ٹھنڈے ہو گئے، اور مکہ واپس لوٹ گئے، غرض اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی فضیلت میں یہ آیت نازل فرمائی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|