(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سفيان ، عن الحسن بن عمارة ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن الحارث ، عن علي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابو بكر، وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين، والآخرين، إلا النبيين، والمرسلين، لا تخبرهما يا علي ما داما حيين". (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ الْحَارِثِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ، وَالْآخِرِينَ، إِلَّا النَّبِيِّينَ، وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ مَا دَامَا حَيَّيْنِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر والے جنتیوں کے سردار ہوں گے، علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ادھیڑ عمر والے جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ادھیڑ عمر ہو کر مرے ہیں کیونکہ جنت میں کوئی ادھیڑ عمر کا نہیں ہو گا سب جوان ہوں گے، «كهول» جمع ہے «كهل» کی، اور «كهل» مردوں میں وہ ہے جس کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک، اور اس سے مراد یہ ہے کہ جو مسلمان اس عمر تک پہنچ کر انتقال کر گئے ہیں یہ دونوں یعنی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جنت میں ان کے سردار ہوں گے، یا کہولت سے کنایہ کیا عقل و شعور اور فہم و فراست کی پختگی پر یعنی جو دانا اور فہمیدہ لوگ جنت میں ہوں گے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان کے سردار ہوں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر نبی، نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا اور انبیاء کے بعد شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما) سب سے افضل ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر نبی معصوم نہیں ہو سکتا اور معلوم ہوا کہ نبی کے بعد خلافت کے مستحق یہی ہیں اس لئے کہ جب جنت میں یہ سردار ہوں گے تو دنیا کی سرداری میں کیا شک رہا، مگر واقع میں نبی اکرم ﷺ نے انہیں جنتیوں کا سردار فرمایا ہے، جہنمیوں کا نہیں، اس لئے گمراہ اور جاہل ان کی سرداری کا انکار کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ المنا قب 16 (3666)، (تحفة الأشراف: 10035)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/80) (صحیح)»
It was narrated that 'Ali said:
"The Messenger of Allah said: 'Abu Bakr and 'Umar are the leaders of the mature people of Paradise, and the first and the last, except for the Prophets and Messengers, but do not tell them about that, O 'Ali, as long as they are still alive.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف جدًا الحسن بن عمارة: متروك والحارث الأعور: ضعيف وحديث الترمذي (3666) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 378
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث95
اردو حاشہ: (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے، وہ اس روایت کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ اس روایت کے بعض الفاظ کی تائید میں کچھ طرق حسن درجے کے بھی ہیں، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (الصحیحۃ، حدیث: 824) لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔
(2) ادھیڑ عمر جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس عمر میں فوت ہوئے، ورنہ جنت میں عمروں کا فرق نہیں ہو گا، بلکہ سب لوگ ہمیشہ کی جوانی سے لطف اندوز ہوں گے۔
(3) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیر نبی خواہ کتنے بلند مرتبہ پر پہنچ جائے، نبی کے برابر یا اس سے افضل نہیں ہو سکتا۔
(4) اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما انبیاء علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں، یعنی امت محمدیہ اور سابقہ امتوں کے تمام مومنوں سے افضل ہیں۔
(5) اس میں اشارہ ہے کہ یہ حضرات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق ہیں۔ چونکہ جنت میں اہل جنت کے سردار ہوں گے، تو دنیا میں بھی انہی کو مومنوں کا سردار ہونا چاہیے۔
(6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین رضی اللہ عنہما کو براہ راست یہ خبر نہیں دی تاکہ دل میں فخر نہ آجائے کیونکہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 95
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3665
´ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے مناقب و فضائل کا بیان` علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اچانک ابوبکر و عمر رضی الله عنہما نمودار ہوئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3665]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں ”علی بن الحسین زین العابدین“ کی اپنے دادا ”علی“ رضی اللہ عنہ سے ملاقات و سماع نہیں ہے، مگر شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3665
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3666
´ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے مناقب و فضائل کا بیان` علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3666]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں حارث اعور ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد و متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3666