سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
12. بَابُ : فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 94
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا نَفَعَنِي مَالٌ قَطُّ، مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ"، قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: هَلْ أَنَا، وَمَالِي إِلَّا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے کسی بھی مال نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے فائدہ پہنچایا“۔ ابوہریرہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اللہ کے رسول! میں اور میرا مال سب صرف آپ ہی کا ہے، اے اللہ کے رسول! ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12528، ومصباح الزجاجة: 38)، وأخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 16 (3655)، مسند احمد (2/253) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حقیقت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال و دولت اور جاہ و شخصیت سے اسلام کو بڑی تقویت ملی، چنانچہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے ابتدائے اسلام میں اور مسلمانوں کی فقر و مسکنت اور قلت تعداد کی حالت میں چالیس ہزار درہم مسلمانوں کی تائید و تقویت میں خرچ کئے، اور قریش سے سات غلاموں کو آزاد کرایا، بلال اور عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہما انہی میں سے تھے، اور آپ کے والد ابو قحافہ رضی اللہ عنہ اس پر معترض ہوئے تو آپ نے کہا کہ میں اللہ عز وجل کی رضا حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں اور آیت: «فأما من أعطى واتقى (۵) وصدق بالحسنى (۶)» (سورة الليل: 5-6) اسی باب میں نازل ہوئی۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنی طاقت بھر اسلام کی خدمت، کتاب و سنت کی نشر و اشاعت اور اہل علم و دین کی تائید و تقویت میں حصہ لے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان پرور زندگی میں ہمارے لئے بڑی عبرت اور موعظت کا سامان ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
الأعمش مدلس وعنعن
وللحديث شاھد ضعيف عند الترمذي (3661)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 378
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 94 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث94
اردو حاشہ:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سنداً ضعیف کہا ہے، تاہم شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کو سامنے رکھتے ہوئے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (الصحیحۃ۔
حدیث: 2718)
(2)
اللہ کا قرب نیک اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔
جس قدر نیکیاں زیادہ ہوں گی اسی قدر مقام بھی بلند ہو گا،
(3)
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا ایمان بعد کے لوگوں سے زیادہ اعلیٰ اور اکمل تھا، اس لیے ان کے اعمال میں خلوص بھی زیادہ تھا، چنانچہ ان کے بظاہر معمولی اعمال بھی بعد والوں کے بظاہر عظیم اعمال سے افضل شمار ہوئے۔
خصوصا جن حالات میں ان حضرات نے مالی قربانیاں دیں بعد کے مسلمانوں کو وہ حالات پیش نہیں آئے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي‘ فَلَوْ اَنَّ اَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغض مُدَّ اَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيْفَهُ) (صحيح البخاري، فضائل اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لو كنت متخذا خليلا، حديث: 3673)
میرے صحابہ کو برا نہ کہو، تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے، تو کسی صحابی کے ایک مُد بلکہ آدھے مُد (کے ثواب)
تک نہیں پہنچ سکتا۔
(4)
اس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خلوص اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی محبت بھی ظاہر ہے کہ اپنے اعمال پر فخر نہیں کیا، بلکہ اپنے مال کو نبی کریم علیہ السلام ہی کا مال قرار دیا، جیسے کسی شاعر نے کہا ہے
منت منہ کہ خدمت سلطان مے کنی
منت ازو شناس کہ بخدمت گذاشت
”احسان نہ جتلا کہ تو بادشاہ کی خدمت کر رہا ہے، بلکہ اس کا احسان سمجھ کہ اس نے تجھے اپنی خدمت میں رکھ چھوڑا ہے۔“
(5)
امام، قائد یا لیڈر کو چاہیے کہ اپنے ساتھیوں کی خدمات کو اہمیت دے اور ان کا اعتراف کرے تاکہ دوسروں کو بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا ہوا اور وہ ان حضرات کا کماحقہ احترام بھی کریں، اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کریں۔
(6)
جس شخص کے متعلق یہ خیال ہو کہ اس کی تعریف سے اس کے دل میں تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوں گے، کسی حکمت کے پیش نظر اس کی موجودگی میں بھی اس کی تعریف کی جا سکتی ہے۔
عام حالات میں کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
(7)
اس حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا صرف ایک پہلو (إِنْفَاق فِیْ سَبِیْلِ اللہ)
ذکر کیا گیا ہے، جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 94