باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب 14. بَابُ: فَضْلِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ باب: عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق (ساتھی) ہے، اور میرے رفیق (ساتھی) اس میں عثمان بن عفان ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13790، ومصباح الزجاجة: 43) (ضعیف)» (عثمان بن خالد ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ا لضعیفہ: 2291)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے پر ملے، اور فرمایا: ”عثمان! یہ جبرائیل ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی شادی ام کلثوم سے رقیہ کے مہر مثل پر کر دی ہے، اس شرط پر کہ تم ان کو بھی اسی خوبی سے رکھو جس طرح اسے (رقیہ کو) رکھتے تھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13789، ومصباح الزجاجة: 44) (ضعیف)» (اس کی سند میں بھی عثمان بن خالد ضعیف راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، جیسا کہ گذشتہ حدیث (109) میں گزرا)
وضاحت: ۱؎: ام کلثوم اور رقیہ رضی اللہ عنہما دونوں نبی کریم ﷺ کی صاحبزادیاں تھیں، اور پہلے دونوں ابولہب کے دونوں بیٹے عتبہ اور ربیعہ کے نکاح میں تھیں، دخول سے پہلے ہی ابولہب نے اپنے دونوں لڑکوں کو کہا کہ محمد ﷺ کی لڑکیوں کو طلاق دے دو، تو انہوں نے طلاق دے دی، اور نبی اکرم ﷺ نے پہلے ایک کی شادی عثمان رضی اللہ عنہ سے کی، پھر ان کے انتقال کے بعد دوسری کی شادی بھی انہی سے کر دی، اس لئے ان کا لقب ذوالنورین ہوا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فتنہ کا ذکر کیا کہ وہ جلد ظاہر ہو گا، اسی درمیان ایک شخص اپنا سر منہ چھپائے ہوئے گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شخص ان دنوں ہدایت پر ہو گا“، کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں تیزی سے اٹھا، اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دونوں کندھے پکڑ لیے، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رخ کر کے کہا: کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہی ہیں (جو ہدایت پر ہوں گے)“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11117، ومصباح الزجاجة: 45)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المنا قب 19 (3704)، مسند احمد (4/ 235، 236، 242، 243) (صحیح)» (ابن سیرین اور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن مرة بن کعب کی ترمذی کی حدیث نمبر (3704) کے شاہد سے یہ صحیح ہے، جس کی تصحیح امام ترمذی نے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والے، اور فتنہ کھڑا کرنے والے حق پر نہ تھے، اور عثمان رضی اللہ عنہ حق پر تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عثمان! اگر اللہ تعالیٰ کبھی تمہیں اس امر یعنی خلافت کا والی بنائے، اور منافقین تمہاری وہ قمیص اتارنا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہنائی ہے، تو اسے مت اتارنا“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار فرمائی۔ نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: پھر آپ نے یہ بات لوگوں کو بتائی کیوں نہیں؟ تو وہ بولیں: میں اسے بھلا دی گئی تھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17675، ومصباح الزجاجة: 46)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 19 (3705)، مسند احمد (6/149) (صحیح) (امام ترمذی نے ربیعہ بن یزید اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے درمیان عبد اللہ بن عامر الیحصبی کا ذکر کیا ہے، ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں اسی کو صحیح قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: 3/264)»
وضاحت: ۱؎: قمیص سے مراد خلافت ہے، ظاہر ہے عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت صحیح تھی، مخالفین ظلم، نفاق اور ہٹ دھرمی کا شکار تھے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی یہ حدیث بمنشا الہٰی بھول گئی تھیں، بعد میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی بات یاد آ گئی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: ”میری خواہش یہ ہے کہ میرے پاس میرے صحابہ میں سے کوئی ہوتا“، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عمر کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، ہم نے عرض کیا: کیا ہم عثمان کو نہ بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو وہ آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے تنہائی میں باتیں کرنے لگے، اور عثمان رضی اللہ عنہ کا چہرہ بدلتا رہا۔ قیس کہتے ہیں: مجھ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے غلام ابوسہلۃ نے بیان کیا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جس دن ان پر حملہ کیا گیا کہا: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے جو عہد لیا تھا میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ علی بن محمد نے اپنی حدیث میں: «وأنا صابر عليه» کہا ہے، یعنی: میں اس پر صبر کرنے والا ہوں۔ قیس بن ابی حازم کہتے ہیں: اس کے بعد سب لوگوں کا خیال تھا کہ اس گفتگو سے یہی دن مراد تھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17569، ومصباح الزجاجة: 47)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 19 (3711)، مسند احمد (1/58، 69، 5/290، 6/ 214)، مقتصراً علی ما رواہ قیس عن أبي سہلة فقط (صحیح)» (نیز ملاحظہ ہو: تعلیق الشہری علی الحدیث فی مصباح الزجاجة: 46)
وضاحت: ۱؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے دن کو یوم الدار سے یاد رکھا، ظالموں نے کئی دن محاصرہ کے بعد آپ کو بھوکا پیاسا شہید کیا، نبی اکرم ﷺ نے آپ کو اس کی پیش گوئی فرما دی تھی، اور تنہائی کی گفتگو کا حال کسی کو معلوم نہ تھا، آپ کی شہادت کے بعد معلوم ہوا، رضی اللہ عنہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|