كِتَاب الْبُيُوعِ کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 20. باب فِي بَيْعِ الْعَرَايَا باب: بیع عرایا جائز ہے۔
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خشک سے تر کھجور کی بیع کو عرایا میں اجازت دی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/البیوع 31 (4541)، (تحفة الأشراف: 3723، 3705)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 75 (2173)، 82 (2184)، 84 (2188)، المساقاة 17 (2380)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1539)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1302)، سنن ابن ماجہ/التجارات 55 (2268)، موطا امام مالک/البیوع 9 (14)، مسند احمد (5/181، 182، 188، 192)، سنن الدارمی/ البیوع 24 (2600) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دے دے، لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے بھائی اس کا اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجوریں ہم سے لے لو، ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن اس میں مسکینوں کا فائدہ ہے اس لئے اسے مزابنہ سے مستثنیٰ کر کے جائز رکھا گیا ہے، اور اسی کو بیع عرایا یعنی عاریت والی بیع کہتے ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (درخت پر پھلے) کھجور کو (سوکھے) کھجور کے عوض بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن عرایا میں اس کو «تمر» (سوکھی کھجور) کے بدلے میں اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دی ہے تاکہ لینے والا تازہ پھل کھا سکے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 83 (2191)، المساقاة 17 (2384)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1540)، سنن الترمذی/البیوع 64 (1303)، سنن النسائی/البیوع 33 (4548)، (تحفة الأشراف: 4646)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/2) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مثلاً عرایا والے کسی شخص کے پاس سوکھی کھجور تھی لیکن «رطب» یعنی تر کھجور اس کے پاس کھانے کو نہ تھی، اس کو باغ والے نے ایک درخت کی تر کھجوریں اندازہ کر کے سوکھی کھجور سے فروخت کر دیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|