كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل 13. باب فِيمَا يَلْزَمُ الإِمَامَ مِنْ أَمْرِ الرَّعِيَّةِ وَالْحَجَبَةِ عَنْهُ باب: امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔
ابومریم ازدی (اسدی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، انہوں نے کہا: اے ابوفلاں! بڑے اچھے آئے، میں نے کہا: میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بتا رہا ہوں، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ”جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے ۱؎ تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۲؎“۔ یہ سنا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 6 (1333)، (تحفة الأشراف: 12173) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی ضروریات پوری نہ کرے اور ان کی محتاجی و تنگ دستی دور نہ کرے۔ ۲؎: یعنی اللہ تعالی بھی اس کی حاجت و ضروریات پوری نہیں کرتا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم کو کوئی چیز نہ اپنی طرف سے دیتا ہوں اور نہ ہی اسے دینے سے روکتا ہوں میں تو صرف خازن ہوں میں تو بس وہیں خرچ کرتا ہوں جہاں مجھے حکم ہوتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14792)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فرض الخمس 7 (3117)، مسند احمد (2/ 314، 482) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دن فیٔ (بغیر جنگ کے ملا ہوا مال) کا ذکر کیا اور کہا کہ میں اس فیٔ کا تم سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا ہم میں سے اس کا دوسرے سے زیادہ حقدار ہے، لیکن ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کے اعتبار سے اپنے اپنے مراتب پر ہیں، جو شخص اسلام لانے میں مقدم ہو گا یا جس نے (اسلام کے لیے) زیادہ مصائب برداشت کئے ہونگے یا عیال دار ہو گا یا حاجت مند ہو گا تو اسی اعتبار سے اس میں مال تقسیم ہو گا، ہر شخص کو اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی ضرورت کے اعتبار سے مال فیٔ تقسیم کیا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10636)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/42) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن موقوف
|