سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
13. باب فِيمَا يَلْزَمُ الإِمَامَ مِنْ أَمْرِ الرَّعِيَّةِ وَالْحَجَبَةِ عَنْهُ
باب: امام پر رعایا کے کیا حقوق ہیں؟ اور ان حقوق کے درمیان رکاوٹ بننے کا وبال۔
حدیث نمبر: 2948
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الأَزْدِيَّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ أَبَا فُلَانٍ، وَهِيَ كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ، فَقُلْتُ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمُ احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ وَفَقْرِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ.
ابومریم ازدی (اسدی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس گیا، انہوں نے کہا: اے ابوفلاں! بڑے اچھے آئے، میں نے کہا: میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی ایک حدیث بتا رہا ہوں، میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ”جسے اللہ مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے ۱؎ تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی و تنگ دستی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۲؎“۔ یہ سنا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کرے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 6 (1333)، (تحفة الأشراف: 12173) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی ضروریات پوری نہ کرے اور ان کی محتاجی و تنگ دستی دور نہ کرے۔
۲؎: یعنی اللہ تعالی بھی اس کی حاجت و ضروریات پوری نہیں کرتا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (3728، 3729)
أخرجه الترمذي (1333 وسنده حسن)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 2948 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2948
فوائد ومسائل:
غیر شرعی اور غیر اسلامی سیاست میں یہ ہوتا ہے کہ حاکم اور رعیت میں فاصلہ ضروری سمجھا جاتا ہے۔
ان کا وہم ہے کہ عوام سے بہت زیادہ میل جول ہیبت اور رعب داب کو کم کردیتا ہے۔
جبکہ اسلامی سیاست اس کے برخلاف ہے۔
حاکم ان کا راعی اور خدمت گار ہے۔
اس کاعوام سے ملنے سے گریز کرنا اور ان کی ضروریات کو پوری نہ کرنا دنیا اور آخرت کا نقصان ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گورنروں کی سخت سرزنش کرتے، اگر یہ معلوم ہوتا کہ عام لوگ بلا روک ٹوک ان سے نہیں مل سکتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2948
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1198
´(قضاء کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابو مریم ازدی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے کسی کام کا حاکم بنا دیا اور وہ پردہ میں رہا۔ ان کی ضروریات اور ان کی حاجات پوری کرنے میں اللہ تعالیٰ بھی پردہ میں رہے گا اس کی حاجات پوری کرنے میں۔“ (ابوداؤد و ترمذی) «بلوغ المرام/حدیث: 1198»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الخراج والإمارة، باب فيما يلزم الإمام من أمر الرعية...، حديث:2948، والترمذي، الأحكام، حديث:1332 وقال: غريب.»
تشریح:
راویٔ حدیث: «حضرت ابو مریم ازدی رضی اللہ عنہ» ازدی‘ اسدی دونوں طرح مشہور ہیں‘ حضرمی بھی کہا جاتا تھا۔
شرف صحابیت سے مشرف تھے۔
شام میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انھیں یہ حدیث بیان کی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1198