سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
Chapter: The Division Of The Khumus And The Share Of His Relatives.
حدیث نمبر: 2978
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن عبد الله بن المبارك، عن يونس بن يزيد، عن الزهري،اخبرني سعيد بن المسيب، اخبرني جبير بن مطعم، انه جاء هو وعثمان بن عفان يكلمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما قسم من الخمس بين بني هاشم وبني المطلب، فقلت: يا رسول الله قسمت لإخواننا بني المطلب، ولم تعطنا شيئا وقرابتنا وقرابتهم منك واحدة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنما بنو هاشم وبنو المطلب شيء واحد"، قال جبير: ولم يقسم لبني عبد شمس ولا لبني نوفل من ذلك الخمس كما قسم لبني هاشم و بني المطلب، قال: وكان ابو بكر يقسم الخمس نحو قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، غير انه لم يكن يعطي قربى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطيهم، قال: وكان عمر بن الخطاب يعطيهم منه وعثمان بعده.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنَّهُ جَاءَ هُوَ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ يُكَلِّمَانِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَسَمَ مِنَ الْخُمُسِ بَيْنَ بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَسَمْتَ لِإِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ، وَلَمْ تُعْطِنَا شَيْئًا وَقَرَابَتُنَا وَقَرَابَتُهُمْ مِنْكَ وَاحِدَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ شَيْءٌ وَاحِدٌ"، قَالَ جُبَيْرٌ: وَلَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ ذَلِكَ الْخُمُسِ كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَ بَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ، قَالَ: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُعْطِيهِمْ مِنْهُ وَعُثْمَانُ بَعْدَهُ.
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں ۲؎ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد شمس اور بنی نوفل کو اس خمس میں سے کچھ نہیں دیا جیسے بنو ہاشم اور بنو مطلب کو دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ ۳؎ بھی اپنی خلافت میں خمس کو اسی طرح تقسیم کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرماتے تھے مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیزوں کو نہ دیتے تھے جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس میں سے ان کو دیتے تھے اور ان کے بعد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بھی ان کو دیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الخمس 17 (3140)، المناقب 2 (3502)، المغازي 39 (4229)، سنن النسائی/الفيء (4141)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 46 (2881)، (تحفة الأشراف: 3185)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/81، 83، 85) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ان دونوں کے خاندان والوں کو نہیں دیا تھا جب کہ ان سب کا اصل خاندان ایک تھا عبدمناف کے چار بیٹے تھے ایک ہاشم جن کی اولاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، دوسرے مطلب، تیسرے عبدشمس جن کی اولاد میں عثمان رضی اللہ عنہ تھے، اورچو تھے نوفل جن کی اولاد میں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ تھے۔
۲؎: یعنی ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اسی لئے کفار نے جب مقاطعہ کا عہد نامہ لکھا تو انہوں نے اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں کو شریک کیا۔
۳؎: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ اس وقت غنی اور مالدار رہے ہوں گے، اور دوسرے لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند رہے ہوں گے، جیسا کہ دوسری روایت میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک حصہ خمس میں سے دیدیا تھا، جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حصہ دینے کے لئے بلایا تو انہوں نے نہیں لیا اور کہا کہ ہم غنی ہیں۔

Narrated Jubair bin Mutim: That he and Uthman bin Affan went to the Messenger of Allah ﷺ talking to him about the fifth which he divided among the Banu Hisham and Abu Abd al-Muttalib. I said: Messenger of Allah, you have divided (the fifth) among our brethren Banu Abd al-Muttalib, but you have not given us anything, though our relationship to you is the same as theirs. The Prophet ﷺ said: The Banu Hisham and the Banu Abd al-Muttalib are one. Jubair said: He did not divide the fifth among the Banu Abd Shams and the Banu Nawfal as he divided among the Banu Hashim and the Banu Abd al-Muttalib. He said: Abu Bakr used to divide the fifth like the division of Messenger of Allah ﷺ except that he did not give the relatives of the Messenger of Allah ﷺ, as he gave them. Umar bin al-Khattab and Uthman after him used to give them (a portion) from it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2972


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2979
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن عمر، حدثنا عثمان بن عمر، اخبرني يونس، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، حدثنا جبير بن مطعم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقسم لبني عبد شمس ولا لبني نوفل من الخمس شيئا كما قسم لبني هاشم وبني المطلب، قال: وكان ابو بكر يقسم الخمس نحو قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، غير انه لم يكن يعطي قربى رسول الله صلى الله عليه وسلم، كما كان يعطيهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان عمر يعطيهم ومن كان بعده منهم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ.
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا، جب کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کیا کرتے تھے، مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیا کرتے تھے، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3185) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو غالباً ان کے مالدار ہونے کی وجہ سے نہ دیتے تھے۔

Narrated Jubair bin Mutim: The Messenger of Allah ﷺ did not divide the fifth among the Banu Abd Shams and Banu Nawfal as he divided among the Banu Hashim and Banu Abd al-Muttalib. He said: Abu Bakr used to divide (the fifth) like the division of the Messenger of Allah ﷺ, except that he did not give the relatives of the Messenger of Allah as the Messenger of Allah ﷺ himself gave them. Umar used to give them (from the fifth) and those who followed him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2973


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2980
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا هشيم، عن محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، اخبرني جبير بن مطعم، قال: لما كان يوم خيبر وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم ذي القربى في بني هاشم وبني المطلب وترك بني نوفل وبني عبد شمس، فانطلقت انا وعثمان بن عفان حتى اتينا النبي صلى الله عليه وسلم فقلنا: يا رسول الله هؤلاء بنو هاشم لا ننكر فضلهم للموضع الذي وضعك الله به منهم، فما بال إخواننا بني المطلب اعطيتهم وتركتنا وقرابتنا واحدة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا و بنو المطلب لا نفترق في جاهلية ولا إسلام وإنما نحن وهم شيء واحد وشبك بين اصابعه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدِّدٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَخْبَرَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ ذِي الْقُرْبَى فِي بَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ وَتَرَكَ بَنِي نَوْفَلٍ وَبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو هَاشِمٍ لَا نُنْكِرُ فَضْلَهُمْ لِلْمَوْضِعِ الَّذِي وَضَعَكَ اللَّهُ بِهِ مِنْهُمْ، فَمَا بَالُ إِخْوَانِنَا بَنِي الْمُطَّلِبِ أَعْطَيْتَهُمْ وَتَرَكْتَنَا وَقَرَابَتُنَا وَاحِدَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا وَ بَنُو الْمُطَّلِبِ لَا نَفْتَرِقُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ وَإِنَّمَا نَحْنُ وَهُمْ شَيْءٌ وَاحِدٌ وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خیبر کی جنگ ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے قرابت داروں کا حصہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا، اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو چھوڑ دیا، تو میں اور عثمان رضی اللہ عنہ دونوں چل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ بنو ہاشم ہیں، ہم ان کی فضیلت کا انکار نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انہیں میں سے کیا ہے، لیکن ہمارے بھائی بنو مطلب کا کیا معاملہ ہے؟ کہ آپ نے ان کو دیا اور ہم کو نہیں دیا، جب کہ آپ سے ہماری اور ان کی قرابت داری یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، ہم اور وہ ایک چیز ہیں ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا (گویا دکھایا کہ اس طرح)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (2978)، (تحفة الأشراف: 3185) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اور بنو مطلب دونوں جدا نہیں ہوئے، نہ جاہلیت میں اور نہ اسلام میں، تو قصہ یہ ہے کہ قریش اور بنی کنانہ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے جدا کرنے پر حلف لیا تھا کہ وہ نہ ان سے نکاح کریں گے، نہ خرید و فروخت کریں گے، جب تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے سپرد نہ کریں، اور اس عہد نامہ کو محصب میں لٹکا دیا تھا، اللہ تعالی کی قدرت سے اسے دیمک چاٹ گئی اور کفار مغلوب ہوئے۔

Narrated Jubair bin Mutim: On the day of Khaibar the Messenger of Allah ﷺ divided the portion to his relatives among the Banu Hashim and Banu Abd al-Muttalib, and omitted Banu Nawfal and Banu Abd Shams. So I and 'Utham bin Affan went to the Prophet ﷺ and we said: Messenger of Allah, these are Banu Hashim whose superiority we do not deny because if the position in which Allah has placed you in relation to them ; but tell us about Banu Abd al-Muttalib to whom you have given something while omitting us though our relationship is the same as theirs. The Messenger of Allah ﷺ said: There is no distinction between us and Banu Abd al-Muttalib in pre-Islamic days and in Islam. We and they are one, and he ﷺ intertwined his fingers.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2974


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2981
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا حسين بن علي العجلي، حدثنا وكيع عن الحسن بن صالح، عن السدي ذي القربى، قال: هم بنو عبد المطلب.
(موقوف) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ السُّدِّيِّ ذِي الْقُرْبَى، قَالَ: هُمْ بَنُو عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
سدی کہتے ہیں کہ کلام اللہ میں «ذي القربى» کا جو لفظ آیا ہے اس سے مراد عبدالمطلب کی اولاد ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18438) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی حسین عجلی کثیرالخطأ ہیں)

Explaining the relatives of the Prophet ﷺ al-Saddi said: They are Banu Abd al-Muttalib.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2975


قال الشيخ الألباني: مقطوع
حدیث نمبر: 2982
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، اخبرني يزيد بن هرمز، ان نجدة الحروري. حين حج في فتنة ابن الزبير ارسل إلى ابن عباس يساله عن سهم ذي القربى، ويقول: لمن تراه؟ قال ابن عباس: لقربى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قسمه لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد كان عمر عرض علينا من ذلك عرضا رايناه دون حقنا فرددناه عليه وابينا ان نقبله..
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ. حينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى، وَيَقُولُ: لِمَنْ تَرَاهُ؟ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِقُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَسَمَهُ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ كَانَ عُمَرُ عَرَضَ عَلَيْنَا مِنْ ذَلِكَ عَرْضًا رَأَيْنَاهُ دُونَ حَقِّنَا فَرَدَدْنَاهُ عَلَيْهِ وَأَبَيْنَا أَنْ نَقْبَلَهُ..
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ مجھے یزید بن ہرمز نے خبر دی کہ نجدہ حروری (خارجیوں کے رئیس) نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے بحران کے زمانہ میں ۱؎ جس وقت حج کیا تو اس نے ایک شخص کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس «ذي القربى» کا حصہ پوچھنے کے لیے بھیجا اور یہ بھی پوچھا کہ آپ کے نزدیک اس سے کون مراد ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و اقارب مراد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان سب میں تقسیم فرمایا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ہمیں اس میں سے دیا تھا لیکن ہم نے اسے اپنے حق سے کم پایا تو لوٹا دیا اور لینے سے انکار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجھاد 48 (1812)، سنن الترمذی/السیر 8 (1556)، سنن النسائی/الفيء (4138)، (تحفة الأشراف: 6557)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/248، 294، 308، 320، 344، 349، 352) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ حجاج نے مکہ پر چڑھائی کر کے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تھا۔

Narrated Abdullah ibn Abbas: Yazid ibn Hurmuz said that when Najdah al-Haruri performed hajj during the rule of Ibn az-Zubayr, he sent someone to Ibn Abbas to ask him about the portion of the relatives (in the fifth). He asked: For whom do you think? Ibn Abbas replied: For the relatives of the Messenger of Allah ﷺ. The Messenger of Allah ﷺ divided it among them. Umar presented it to us but we found it less than our right. We, therefore returned it to him and refused to accept it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2976


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2983
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عباس بن عبد العظيم، حدثنا يحيى بن ابي بكير، حدثنا ابو جعفر الرازي، عن مطرف، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: سمعت عليا يقول: ولاني رسول الله صلى الله عليه وسلم خمس الخمس فوضعته مواضعه حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وحياة ابي بكر، وحياة عمر فاتي بمال فدعاني، فقال: خذه فقلت: لا اريده قال: خذه فانتم احق به، قلت قد استغنينا عنه فجعله في بيت المال..
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًا يَقُولُ: وَلَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُمُسَ الْخُمُسِ فَوَضَعْتُهُ مَوَاضِعَهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَيَاةَ أَبِي بَكْرٍ، وَحَيَاةَ عُمَرَ فَأُتِيَ بِمَالٍ فَدَعَانِي، فَقَالَ: خُذْهُ فَقُلْتُ: لَا أُرِيدُهُ قَالَ: خُذْهُ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ بِهِ، قُلْتُ قَدِ اسْتَغْنَيْنَا عَنْهُ فَجَعَلَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ..
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خمس کا خمس (پانچویں حصہ کا پانچواں حصہ) دیا، تو میں اسے اس کے خرچ کے مد میں صرف کرتا رہا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما زندہ رہے پھر (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں) ان کے پاس مال آیا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہا: اس کو لے لو، میں نے کہا: میں نہیں لینا چاہتا، انہوں نے کہا: لے لو تم اس کے زیادہ حقدار ہو، میں نے کہا: اب ہمیں اس مال کی حاجت نہیں رہی (ہمیں اللہ نے اس سے بے نیاز کر دیا ہے) تو انہوں نے اسے بیت المال میں داخل کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10224) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابوجعفر رازی ضعیف ہیں)

Narrated Abdur-Rahman bin Abi Laila: I heard Ali say: The Messenger of Allah ﷺ assigned me the fifth (of the booty). I spent it on its beneficiaries during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ and Abu Bakr and of Umar. Some property was brought to him (Umar) and he called me and said: Take it. I said: I dod not want it. He said: Take it ; you have right to it. I said: We do not need it. So he deposited in the government treasury.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2977


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 2984
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا ابن نمير، حدثنا هاشم بن البريد، حدثنا حسين بن ميمون، عن عبد الله بن عبد الله، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، قال: سمعت عليا عليه السلام يقول: اجتمعت انا، والعباس، وفاطمة، وزيد بن حارثة عند النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله إن رايت ان توليني حقنا من هذا الخمس في كتاب الله، فاقسمه حياتك كي لا ينازعني احد بعدك فافعل، قال: ففعل ذلك قال: فقسمته حياة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ولانيه ابو بكر رضي الله عنه حتى إذا كانت آخر سنة من سني عمر رضي الله عنه فإنه اتاه مال كثير فعزل حقنا، ثم ارسل إلي فقلت: بنا عنه العام غنى وبالمسلمين إليه حاجة فاردده عليهم فرده عليهم، ثم لم يدعني إليه احد بعد عمر، فلقيت العباس بعد ما خرجت من عند عمر، فقال: يا علي حرمتنا الغداة شيئا لا يرد علينا ابدا وكان رجلا داهيا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا، وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عند النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ لَمْ يَدْعُنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ بَعْدَ عُمَرَ، فَلَقِيتُ الْعَبَّاسَ بَعْدَ مَا خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا عَلِيُّ حَرَمْتَنَا الْغَدَاةَ شَيْئًا لَا يُرَدُّ عَلَيْنَا أَبَدًا وَكَانَ رَجُلًا دَاهِيًا.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں، عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئیے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا، عمر رضی اللہ عنہ کے بعد پھر کسی نے مجھے اس مال (یعنی خمس الخمس) کے لینے کے لیے نہیں بلایا، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلنے کے بعد میں عباس رضی اللہ عنہ سے ملا، تو وہ کہنے لگے: علی! تم نے ہم کو آج ایسی چیز سے محروم کر دیا جو پھر کبھی لوٹ کر نہ آئے گی (یعنی اب کبھی یہ حصہ ہم کو نہ ملے گا) اور وہ ایک سمجھدار آدمی تھے (انہوں نے جو کہا تھا وہی ہوا)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10214)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/84) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی حسین بن میمون لین الحدیث ہیں، لیکن پچھلی روایت اور یہ روایت دونوں آپس میں ایک دوسرے سے مل کر اس واقعہ کی اصلیت کو حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں)

Narrated Ali ibn Abu Talib: I, al-Abbas, Fatimah and Zayd ibn Harithah gathered with the Prophet ﷺ and I said: Messenger of Allah, if you think to assign us our right (portion) in this fifth ( of the booty) as mentioned in the Book of Allah, and this I may divide during your lifetime so that no one may dispute me after you, then do it. He said: He did that. He said: I divided it during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ. Abu Bakr then assigned it to me. During the last days of the caliphate of Umar a good deal of property came to him and took out our portion. I said to him: We are well to do this year; but the Muslims are needy, so return it to them. He, therefore, returned it to them. No one called me after Umar. I met al-Abbas when I came out from Umar. He said: Ali, today you have deprived us of a thing that will never be returned to us. He was indeed a man of wisdom.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2978


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 2985
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، اخبرني عبد الله بن الحارث بن نوفل الهاشمي، ان عبد المطلب بن ربيعة بن الحارث بن عبد المطلب اخبره، ان اباه ربيعة بن الحارث، وعباس بن عبد المطلب، قالا: لعبد المطلب بن ربيعة، وللفضل بن عباس ائتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولا له: يا رسول الله قد بلغنا من السن ما ترى واحببنا ان نتزوج، وانت يا رسول الله ابر الناس واوصلهم وليس عند ابوينا ما يصدقان عنا فاستعملنا يا رسول الله على الصدقات فلنؤد إليك ما يؤدي العمال ولنصب ما كان فيها من مرفق، قال: فاتى علي بن ابي طالب ونحن على تلك الحال، فقال لنا: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا والله لا نستعمل منكم احدا على الصدقة"، فقال له ربيعة: هذا من امرك قد نلت صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نحسدك عليه، فالقى علي رداءه، ثم اضطجع عليه فقال: انا ابو حسن القرم والله لا اريم حتى يرجع إليكما ابناكما بجواب ما بعثتما به إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال عبد المطلب: فانطلقت انا والفضل إلى باب حجرة النبي صلى الله عليه وسلم حتى نوافق صلاة الظهر قد قامت فصلينا مع الناس ثم اسرعت انا والفضل إلى باب حجرة النبي صلى الله عليه وسلم وهو يومئذ عند زينب بنت جحش فقمنا بالباب حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخذ باذني واذن الفضل، ثم قال:" اخرجا ما تصرران"، ثم دخل فاذن لي وللفضل فدخلنا فتواكلنا الكلام قليلا، ثم كلمته او كلمه الفضل قد شك في ذلك عبد الله قال: كلمه بالامر الذي امرنا به ابوانا، فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة ورفع بصره قبل سقف البيت حتى طال علينا انه لا يرجع إلينا شيئا حتى راينا زينب تلمع من وراء الحجاب بيدها تريد ان لا تعجلا وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم في امرنا ثم خفض رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فقال لنا:" إن هذه الصدقة إنما هي اوساخ الناس وإنها لا تحل لمحمد ولا لآل محمد ادعوا لي نوفل بن الحارث، فدعي له نوفل بن الحارث فقال: يا نوفل انكح عبد المطلب فانكحني نوفل، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم ادعوا لي محمية بن جزء وهو رجل من بني زبيد، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمله على الاخماس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمحمية: انكح الفضل فانكحه، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قم فاصدق عنهما من الخمس كذا وكذا"، لم يسمه لي عبد الله بن الحارث.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيُّ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، وَعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَا: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ بَلَغْنَا مِنَ السِّنِّ مَا تَرَى وَأَحْبَبْنَا أَنْ نَتَزَوَّجَ، وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَبَرُّ النَّاسِ وَأَوْصَلُهُمْ وَلَيْسَ عِنْدَ أَبَوَيْنَا مَا يُصْدِقَانِ عَنَّا فَاسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَلْنُؤَدِّ إِلَيْكَ مَا يُؤَدِّي الْعُمَّالُ وَلْنُصِبْ مَا كَانَ فِيهَا مِنْ مَرْفَقٍ، قَالَ: فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَنَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا وَاللَّهِ لَا نَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ"، فَقَالَ لَهُ رَبِيعَةُ: هَذَا مِنْ أَمْرِكَ قَدْ نِلْتَ صِهْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَحْسُدْكَ عَلَيْهِ، فَأَلْقَى عَلِيٌّ رِدَاءَهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَيْهِ فَقَالَ: أَنَا أَبُو حَسَنٍ الْقَرْمُ وَاللَّهِ لَا أَرِيمُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَيْكُمَا ابْنَاكُمَا بِجَوَابِ مَا بَعَثْتُمَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نُوَافِقَ صَلَاةَ الظُّهْرِ قَدْ قَامَتْ فَصَلَّيْنَا مَعَ النَّاسِ ثُمَّ أَسْرَعْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ إِلَى بَابِ حُجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَقُمْنَا بِالْبَابِ حَتَّى أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِأُذُنِي وَأُذُنِ الْفَضْلِ، ثُمَّ قَالَ:" أَخْرِجَا مَا تُصَرِّرَانِ"، ثُمَّ دَخَلَ فَأَذِنَ لِي وَلِلْفَضْلِ فَدَخَلْنَا فَتَوَاكَلْنَا الْكَلَامَ قَلِيلًا، ثُمَّ كَلَّمْتُهُ أَوْ كَلَّمَهُ الْفَضْلُ قَدْ شَكَّ فِي ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: كَلَّمَهُ بِالأَمْرِ الَّذِي أَمَرَنَا بِهِ أَبَوَانَا، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ بَصَرَهُ قِبَلَ سَقْفِ الْبَيْتِ حَتَّى طَالَ عَلَيْنَا أَنَّهُ لَا يَرْجِعُ إِلَيْنَا شَيْئًا حَتَّى رَأَيْنَا زَيْنَبَ تَلْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ بِيَدِهَا تُرِيدُ أَنْ لَا تَعْجَلَا وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَمْرِنَا ثُمَّ خَفَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَقَالَ لَنَا:" إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ ادْعُوا لِي نَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ، فَدُعِيَ لَهُ نَوْفَلُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَالَ: يَا نَوْفَلُ أَنْكِحْ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ فَأَنْكَحَنِي نَوْفَلٌ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْعُوا لِي مَحْمِيَةَ بْنَ جَزْءٍ وَهُوَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُبَيْدٍ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى الأَخْمَاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَحْمِيَةَ: أَنْكِحْ الْفَضْلَ فَأَنْكَحَهُ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ فَأَصْدِقْ عَنْهُمَا مِنَ الْخُمُسِ كَذَا وَكَذَا"، لَمْ يُسَمِّهِ لِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ.
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے خبر دی کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما نے ان سے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ اللہ کے رسول! ہم جس عمر کو پہنچ گئے ہیں وہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں، اور ہم شادی کرنے کے خواہاں ہیں، اللہ کے رسول! آپ لوگوں میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ رشتہ و ناتے کا خیال رکھنے والے ہیں، ہمارے والدین کے پاس مہر ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کے رسول! ہمیں صدقہ وصولی کے کام پر لگا دیجئیے جو دوسرے عمال وصول کر کے دیتے ہیں وہ ہم بھی وصول کر کے دیں گے اور جو فائدہ (یعنی حق محنت) ہو گا وہ ہم پائیں گے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حال میں تھے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے ہم سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: قسم اللہ کی! ہم تم میں سے کسی کو بھی صدقہ کی وصولی کا عامل نہیں بنائیں گے ۱؎۔ اس پر ربیعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تم اپنی طرف سے کہہ رہے ہو، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف حاصل کیا تو ہم نے تم سے کوئی حسد نہیں کیا، یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ اپنی چادر بچھا کر اس پر لیٹ گئے اور کہنے لگے: میں ابوالحسن سردار ہوں (جیسے اونٹوں میں بڑا اونٹ ہوتا ہے) قسم اللہ کی! میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا جب تک کہ تمہارے دونوں بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اس بات کا جواب لے کر نہ آ جائیں جس کے لیے تم نے انہیں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے۔ عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں گئے، ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے پاس پہنچے ہی تھے کہ ظہر کھڑی ہو گئی ہم نے سب کے ساتھ نماز جماعت سے پڑھی، نماز پڑھ کر میں اور فضل دونوں جلدی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے دروازے کی طرف لپکے، آپ اس دن ام المؤمنین زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے پاس تھے، اور ہم دروازے پر کھڑے ہو گئے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے اور (پیار سے) میرے اور فضل کے کان پکڑے، اور کہا: بولو بولو، جو دل میں لیے ہو، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں چلے گئے اور مجھے اور فضل کو گھر میں آنے کی اجازت دی، تو ہم اندر چلے گئے، اور ہم نے تھوڑی دیر ایک دوسرے کو بات چھیڑنے کے لیے اشارہ کیا (تم کہو تم کہو) پھر میں نے یا فضل نے (یہ شک حدیث کے راوی عبداللہ کو ہوا) آپ سے وہی بات کہی جس کا ہمارے والدین نے ہمیں حکم دیا تھا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھڑی تک چپ رہے، پھر نگاہیں اٹھا کر گھر کی چھت کی طرف دیر تک تکتے رہے، ہم نے سمجھا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کوئی جواب نہ دیں، یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کہ پردے کی آڑ سے (ام المؤمنین) زینب رضی اللہ عنہا اشارہ کر رہی ہیں کہ تم جلدی نہ کرو (گھبراؤ نہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہی مطلب کی فکر میں ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کو نیچا کیا، اور فرمایا: یہ صدقہ تو لوگوں (کے مال) کا میل (کچیل) ہے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل (و اولاد) کے لیے حلال نہیں ہے، (یعنی بنو ہاشم کے لیے صدقہ لینا درست نہیں ہے) نوفل بن حارث کو میرے پاس بلاؤ چنانچہ نوفل بن حارث رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بلایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نوفل! اپنی بیٹی کا نکاح عبدالمطلب سے کر دو، تو نوفل نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محمیہ بن جزء کو میرے پاس بلاؤ، محمیۃ بن جزء رضی اللہ عنہ بنو زبید کے ایک فرد تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خمس کی وصولی کا عامل بنا رکھا تھا (وہ آئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تم فضل کا (اپنی بیٹی سے) نکاح کر دو، تو انہوں نے ان کا نکاح کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) کہا: جاؤ مال خمس میں سے ان دونوں کا مہر اتنا اتنا ادا کر دو۔ (ابن شہاب کہتے ہیں) عبداللہ بن حارث نے مجھ سے مہر کی مقدار بیان نہیں کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 51 (1072)، سنن النسائی/الزکاة 95 (2610)، (تحفة الأشراف: 9737)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/166) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریقہ تھا کہ کسی منصب اور ذمہ داری کے خواہاں کو آپ ذمہ داری نہیں سونپتے تھے۔

Narrated Abdul Muttalib ibn Rabiah ibn al-Harith: Abdul Muttalib ibn Rabiah ibn al-Harith said that his father, Rabiah ibn al-Harith, and Abbas ibn al-Muttalib said to Abdul Muttalib ibn Rabiah and al-Fadl ibn Abbas: Go to the Messenger of Allah ﷺ and tell him: Messenger of Allah, we are now of age as you see, and we wish to marry. Messenger of Allah, you are the kindest of the people and the most skilled in matchmaking. Our fathers have nothing with which to pay our dower. So appoint us collector of sadaqah (zakat), Messenger of Allah, and we shall give you what the other collectors give you, and we shall have the benefit accruing from it. Ali came to us while we were in this condition. He said: The Messenger of Allah ﷺ said: No, I swear by Allah, he will not appoint any of you collector of sadaqah (zakat). Rabiah said to him: This is your condition; you have gained your relationship with the Messenger of Allah ﷺ by marriage, but we did not grudge you that. Ali then put his cloak on the earth and lay on it. He then said: I am the father of Hasan, the chief. I swear by Allah, I shall not leave this place until your sons come with a reply (to the question) for which you have sent them to the Prophet ﷺ. Abdul Muttalib said: So I and al-Fadl went towards the door of the apartment of the Prophet ﷺ. We found that the noon prayer in congregation had already started. So we prayed along with the people. I and al-Fadl then hastened towards the door of the apartment of the Prophet ﷺ. He was (staying) with Zaynab, daughter of Jahsh, that day. We stood until the Messenger of Allah ﷺ came. He caught my ear and the ear of al-Fadl. He then said: Reveal what you conceal in your hearts. He then entered and permitted me and al-Fadl (to enter). So we entered and for a little while we asked each other to talk. I then talked to him, or al-Fadl talked to him (the narrator, Abdullah was not sure). He said: He spoke to him concerning the matter about which our fathers ordered us to ask him. The Messenger of Allah ﷺ remained silent for a moment and raised his eyes towards the ceiling of the room. He took so long that we thought he would not give any reply to us. Meanwhile we saw that Zaynab was signalling to us with her hand from behind the veil, asking us not to be in a hurry, and that the Messenger of Allah ﷺ was (thinking) about our matter. The Messenger of Allah ﷺ then lowered his head and said to us: This sadaqah (zakat) is a dirt of the people. It is legal neither for Muhammad nor for the family of Muhammad. Call Nawfal ibn al-Harith to me. So Nawfal ibn al-Harith was called to him. He said: Nawfal, marry Abdul Muttalib (to your daughter). So Nawfal married me (to his daughter). The Prophet ﷺ then said: Call Mahmiyyah ibn Jazi to me. He was a man of Banu Zubayd, whom the Messenger of Allah ﷺ had appointed collector of the fifths. The Messenger of Allah ﷺ said to Mahmiyyah: Marry al-Fadl (to your daughter). So he married him to her. The Messenger of Allah ﷺ said: Stand up and pay the dower from the fifth so-and-so on their behalf. Abdullah ibn al-Harith did not name it (i. e. the amount of the dower).
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2979


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2986
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة بن خالد، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي اخبره، ان علي بن ابي طالب، قال: كانت لي شارف من نصيبي من المغنم يوم بدر، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاني شارفا من الخمس يومئذ، فلما اردت ان ابني بفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع ان يرتحل معي فناتي بإذخر اردت ان ابيعه من الصواغين فاستعين به في وليمة عرسي، فبينا انا اجمع لشارفي متاعا من الاقتاب والغرائر والحبال وشارفاي مناخان إلى جنب حجرة رجل من الانصار اقبلت حين جمعت ما جمعت فإذا بشارفي قد اجتبت اسنمتهما وبقرت خواصرهما واخذ من اكبادهما، فلم املك عيني حين رايت ذلك المنظر، فقلت: من فعل هذا قالوا: فعله حمزة بن عبد المطلب وهو في هذا البيت في شرب من الانصار غنته قينة واصحابه، فقالت في غنائها: الا يا حمز للشرف النواء؟، فوثب إلى السيف فاجتب اسنمتهما وبقر خواصرهما، واخذ من اكبادهما قال علي: فانطلقت حتى ادخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده زيد بن حارثة، قال: فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي لقيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك، قال: قلت: يا رسول الله ما رايت كاليوم عدا حمزة على ناقتي فاجتب اسنمتهما وبقر خواصرهما وههو ذا في بيت معه شرب فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بردائه فارتداه، ثم انطلق يمشي واتبعته انا وزيد بن حارثة. حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستاذن فاذن له فإذا هم شرب فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يلوم حمزة فيما فعل، فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه، فنظر حمزة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صعد النظر فنظر إلى ركبتيه ثم صعد النظر فنظر إلى سرته ثم صعد النظر فنظر إلى وجهه، ثم قال: حمزة وهل انتم إلا عبيد لابي، فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم انه ثمل فنكص رسول الله صلى الله عليه وسلم على عقبيه القهقرى فخرج وخرجنا معه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ؟، فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. حتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان، گھاس کے ٹوکرے اور رسیاں (وغیرہ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضروری سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لوٹ کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئیے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لیے گئے ہیں، جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکا میں نے کہا: یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے، وہ اس گھر میں چند انصاریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں گا یا: «ألا يا حمز للشرف النواء»  ۱؎ (اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لیے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو) یہ سن کر وہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چاک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لیے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو (صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے، آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کو ان کے کئے پر ملامت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا، پھر بولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آئے (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 28 (2089)، المساقاة 13 (2375)، فرض الخمس 1 (3091)، المغازي 12 (4003)، اللباس 9 (5793)، صحیح مسلم/الأشربة 1 (1979)، (تحفة الأشراف: 10069)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/142) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎؎: باقی اشعار اس طرح ہیں: «أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء ضَع السكين في اللبات منها وضرجهن حمزة بالدماء وعجل من أطايبها لشرب قديدًا من طبيخ أو شواء» اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پر چھری پھیر کر انہیں خون میں لت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو۔

Ali bin Abi Talib said “I had an old she Camel that I got as my share from the booty on the day of Badr. The Messenger of Allah ﷺ also gave me an old she camel from the fifth that day. When I intended to cohabit with Fathimah daughter of the Messenger of Allah ﷺ, I made arrangement with a man who was a goldsmith belonging to Banu Qainuqa’ to go with me so that we may bring grass. I intended to sell it to the goldsmith there by seeking help in my wedding feast. While I was collecting for my old Camels saddles, baskets and ropes both of she Camels were seated in a corner of the apartment of a man of the Ansar. When I collected what I collected (i. e., equipment) I turned (towards them). I suddenly found that the humps of she Camels were cut off and their hips were pierced and their lives were taken out. I could not control my eyes (to weep) when I saw that scene. I said “Who has done this?” They (the people) replied “Hamzah bin Abd Al Muttalib”. He is among the drunkards of the Ansar in this house. A singing girl is singing for him and his Companions. While singing she said “Oh Hamza, rise to these plumpy old she Camels. So he jumped to the sword and cut off their humps, pierced their hips and took out their livers. ” Ali said “I went till I entered upon the Messenger of Allah ﷺ while Zaid bin Harithah was with him. ” The Messenger of Allah ﷺ realized what I had met with. The Messenger of Allah ﷺ aid “What is the matter with you?” I said Messenger of Allah ﷺ, I never saw the thing that happened with me today. Hamzah wronged my she Camels, he cut off their humps, pierced their hips. Lo! He is in a house with drunkards. The Messenger of Allah ﷺ asked for his cloak. It was brought to him. He then went out, I and Zaid bin Harithah followed him until we reached the house where Hamzah was. He asked permission ( to entre). He was permitted. He found drunkards there. The Messenger of Allah ﷺ began to rebuke him (Hamzah) for his action. Hamzah was intoxicated and his eyes were reddish. Hamzah looked at the Messenger of Allah ﷺ. He then raised his eyes and looked at his knees, he then raised his eyes and looked at his navel and he then raised his eyes and looked at his face. Hamzah then said “Are you but the salves of my father? Then the Messenger of Allah ﷺ knew that he was intoxicated. So the Messenger of Allah ﷺ moved backward. He then went out and we also went out with him. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2980


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2987
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، حدثني عياش بن عقبة الحضرمي، عن الفضل بن الحسن الضمري، ان ام الحكم او ضباعة ابنتي الزبير بن عبد المطلب حدثته , عن إحداهما، انها قالت: اصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم سبيا فذهبت انا واختي وفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه ما نحن فيه وسالناه ان يامر لنا بشيء من السبي، فقال رسول الله صلى الله وسلم:" سبقكن يتامى بدر لكن سادلكن على ما هو خير لكن من ذلك تكبرن الله على إثر كل صلاة ثلاثا وثلاثين تكبيرة وثلاثا وثلاثين تسبيحة وثلاثا وثلاثين تحميدة ولا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير"، قال عياش: وهما ابنتا عم النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْه , عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ:" سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہہ لیا کرو۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15912، 15314)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5066) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی البانی نے صحیحة 2؍ 188، اور صحیح ابی داود 2644، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود 2؍ 424)

وضاحت:
۱؎: مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے، سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔
۲؎: یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔

Umm Al Hakam or Dubaah daughters of Al Zibair bin Abd Al Muttalib said “Some captives of war were brought to the Messenger of Allah ﷺ. I and my sister Fatimah, daughter of Messenger of Allah ﷺ went (to the Prophet) and complained to him about our existing condition. We asked him to order (to give) us some captives. The Messenger of Allah ﷺ said “the orphans of the people who were killed in the battle of Badr came before you (and they asked for the captives). But I tell you something better than that. You should utter “Allaah is Most Great” after each prayer thirty three times, “Glory be to Allaah” thirty three times, “Praise be to Allaah” thirty three times and “there is no god but Allaah alone, He has no associate, the Kingdom belongs to Him and praise is due to Him and He has power over all things. ” The narrator Ayyash said “They were daughters of Uncle of the Prophet ﷺ. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2981


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2988
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن خلف، حدثنا عبد الاعلى، عن سعيد يعني الجريري، عن ابي الورد، عن ابن اعبد، قال: قال لي علي رضي الله عنه: الا احدثك عني وعن فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانت من احب اهله إليه؟ قلت: بلى قال: إنها جرت بالرحى حتى اثر في يدها، واستقت بالقربة حتى اثر في نحرها وكنست البيت حتى اغبرت ثيابها، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم خدم، فقلت: لو اتيت اباك فسالتيه خادما، فاتته فوجدت عنده حداثا فرجعت فاتاها من الغد فقال: ما كان حاجتك؟ فسكتت، فقلت انا احدثك: يا رسول الله جرت بالرحى حتى اثرت في يدها وحملت بالقربة حتى اثرت في نحرها فلما ان جاءك الخدم امرتها ان تاتيك فتستخدمك خادما يقيها حر ما هي فيه، قال:" اتقي الله يا فاطمة وادي فريضة ربك واعملي عمل اهلك، فإذا اخذت مضجعك، فسبحي ثلاثا وثلاثين واحمدي ثلاثا وثلاثين وكبري اربعا وثلاثين فتلك مائة فهي خير لك من خادم"، قالت: رضيت عن الله عز وجل، وعن رسوله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي الْجُرَيرِيَّ، عَنْ أَبِي الْوَرْدِ، عَنْ ابْنِ أَعْبُدَ، قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنِّي وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ مِنْ أَحَبِّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: إِنَّهَا جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَ فِي يَدِهَا، وَاسْتَقَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَ فِي نَحْرِهَا وَكَنَسَتَ الْبَيْتَ حَتَّى اغْبَرَّتْ ثِيَابُهَا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدَمٌ، فَقُلْتُ: لَوْ أَتَيْتِ أَبَاكِ فَسَأَلْتِيهِ خَادِمًا، فَأَتَتْهُ فَوَجَدَتْ عِنْدَهُ حُدَّاثًا فَرَجَعَتْ فَأَتَاهَا مِنَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا كَانَ حَاجَتُكِ؟ فَسَكَتَتْ، فَقُلْتُ أَنَا أُحَدِّثُكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جَرَّتْ بِالرَّحَى حَتَّى أَثَّرَتْ فِي يَدِهَا وَحَمَلَتْ بِالْقِرْبَةِ حَتَّى أَثَّرَتْ فِي نَحْرِهَا فَلَمَّا أَنْ جَاءَكَ الْخَدَمُ أَمَرْتُهَا أَنْ تَأْتِيَكَ فَتَسْتَخْدِمَكَ خَادِمًا يَقِيهَا حَرَّ مَا هِيَ فِيهِ، قَالَ:" اتَّقِي اللَّهَ يَا فَاطِمَةُ وَأَدِّي فَرِيضَةَ رَبِّكِ وَاعْمَلِي عَمَلَ أَهْلِكِ، فَإِذَا أَخَذْتِ مَضْجَعَكِ، فَسَبِّحِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَاحْمَدِي ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَكَبِّرِي أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فَتِلْكَ مِائَةٌ فَهِيَ خَيْرٌ لَكِ مِنْ خَادِمٍ"، قَالَتْ: رَضِيتُ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعَنْ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن اعبد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے، اور پانی بھربھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا کہ تم اپنے ابا جان کے پاس جاتی، اور ان سے اپنے لیے ایک خادمہ مانگ لیتی، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو دیکھا کہ وہاں کچھ لوگ آپ سے گفتگو کر رہے ہیں تو لوٹ آئیں، دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا: تم کس ضرورت سے آئی تھیں؟، وہ چپ رہیں تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں آپ کو بتاتا ہوں، چکی پیستے پیستے ان کے ہاتھ میں نشان (گٹھا) پڑ گیا، مشک ڈھوتے ڈھوتے سینے میں درد رہنے لگا اب آپ کے پاس خادم آئے ہیں تو میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے پاس جائیں، اور آپ سے ایک خادم مانگ کر لائیں، جس کے ذریعہ اس شدت و تکلیف سے انہیں نجات ملے جس سے وہ دو چار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! اللہ سے ڈرو اور اپنے رب کے فرائض ادا کرتی رہو، اور اپنے گھر کے کام کیا کرو، اور جب سونے چلو تو (۳۳) بار سبحان اللہ، (۳۳) بار الحمدللہ، اور (۳۴) بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو، یہ کل سو ہوئے یہ تمہارے لیے خادمہ سے بہتر ہیں ۱؎۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خوش ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود بہذا الیساق: (اتقي اللّٰہ یا فاطمة، وأدي فریضة ربک، واعملي عمل أہلک)، وأما البقیة من الحدیث فقد رواہ کل من:صحیح البخاری/فرض الخمس 6 (3113)، فضائل الصحابة 9 (3705)، النفقات 6 (5361)، الدعوات 11 (6318)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 19 (2727)، سنن الترمذی/الدعوات 24 (3408)، (تحفة الأشراف: 10245)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/96)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5062) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (مذکورہ جملے کے اضافہ کے ساتھ ضعیف ہے کیونکہ اس سے راوی ابوالورد لین الحدیث ہیں اور ابن اعبد مجہول ہیں، بقیہ حصہ توصحیحین میں ہے)

وضاحت:
۱؎: شاید اسی میں مصلحت رہی ہوکہ رسول اللہ ﷺ کی آل واولاد کو دنیا میں تکلیف وتنگ دستی رہے، تاکہ یہ چیز آخرت میں ان کے لئے بلندی درجات کا سبب بنے۔

Ibn A’bud said, Ali said to me “May I not narrate you about me and Fathimah daughter of the Messenger of Allah ﷺ? She was most favorite to him of his family. ” I said “Yes”. He said “She pulled the grinding stone with her hand so much that it affected her hand, she carried water in a water bag so much so that it affected the upper portion of her chest, she swept the house so much so that her clothes became dirty. The Prophet ﷺ acquired some slaves”. So I said “Would that you go to your father and ask him for a slave. She then came to him and found some people with him talking to him. She therefore returned. Next day she came again. He asked (her), what was your need? But she kept silence. So I said, I inform you, Messenger of Allah ﷺ. She pulled grinding stone so much that it affected her hand, she carried water bag so much so that it affected the upper portion of her chest. When the slaves were brought to you I asked her to come to you and to ask you for a slave to save her from the exertion she is suffering. ” He said “Fear Allaah, Fathimah and perform the duty of your Lord and do the work of your family. ” When you go to bed say “Glory be to Allaah” thirty three times, “Praise be to Allaah” thirty three times, “Allaah is Most Great” thirty four times. This is hundred times. That will be better for you than a servant. She said “I am pleased with Allaah, Most High and with his Messenger ﷺ. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2982


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2989
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد المروزي، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر،عن الزهري، عن علي بن حسين بهذه القصة، قال: ولم يخدمها.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ،عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: وَلَمْ يُخْدِمْهَا.
علی بن حسین سے بھی یہی واقعہ مروی ہے اس میں یہ ہے کہ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خادم نہیں دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ (ضعیف)» ‏‏‏‏ (علی بن حسین زیدالعابدین نے اپنے نانا علی کو نہیں پایا ہے لیکن واقعہ صحیح ہے)

The tradition mentioned above has also been transmitted by Ali bin Hussain through a different chain of narrators. This version adds “He (the Prophet) did not provide her with a slave. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2983


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2990
Save to word اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا عنبسة بن عبد الواحد القرشي، قال ابو جعفر يعني ابن عيسى: كنا نقول إنه من الابدال قبل ان نسمع ان الابدال من الموالي، قال: حدثني الدخيل بن إياس بن نوح بن مجاعة، عن هلال بن سراج بن مجاعة، عن ابيه، عن جده مجاعة انه اتى النبي صلى الله عليه وسلم يطلب دية اخيه قتلته بنو سدوس من بني ذهل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لو كنت جاعلا لمشرك دية جعلت لاخيك، ولكن ساعطيك منه عقبى"، فكتب له النبي صلى الله عليه وسلم بمائة من الإبل من اول خمس يخرج من مشركي بني ذهل فاخذ طائفة منها واسلمت بنو ذهل فطلبها بعد مجاعة إلى ابي بكر، واتاه بكتاب النبي صلى الله عليه وسلم فكتب له ابو بكر باثني عشر الف صاع من صدقة اليمامة اربعة آلاف برا واربعة آلاف شعيرا واربعة آلاف تمرا، وكان في كتاب النبي صلى الله عليه وسلم لمجاعة بسم الله الرحمن الرحيم هذا كتاب من محمد النبي لمجاعة بن مرارة من بني سلمى إني اعطيته مائة من الإبل من اول خمس يخرج من مشركي بني ذهل عقبة من اخيه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْقُرَشِيُّ، قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ يَعْنِي ابْنَ عِيسَى: كُنَّا نَقُولُ إِنَّه مِنَ الأَبْدَالِ قَبْلَ أَنْ نَسْمَعَ أَنَّ الأَبْدَالَ مِنَ الْمَوَالِي، قَالَ: حَدَّثَنِي الدَّخِيلُ بْنُ إِيَاسِ بْنِ نُوحِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ سِرَاجِ بْنِ مُجَّاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ مُجَّاعَةَ أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْلُبُ دِيَةَ أَخِيهِ قَتَلَتْهُ بَنُو سَدُوسٍ مِنْ بَنِي ذُهْلٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ جَاعِلًا لِمُشْرِكٍ دِيَةً جَعَلْتُ لِأَخِيكَ، وَلَكِنْ سَأُعْطِيكَ مِنْهُ عُقْبَى"، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِائَةٍ مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ فَأَخَذَ طَائِفَةً مِنْهَا وَأَسْلَمَتْ بَنُو ذُهْلٍ فَطَلَبَهَا بَعْدُ مُجَّاعَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، وَأَتَاهُ بِكِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ بِاثْنَيْ عَشَرَ أَلْفَ صَاعٍ مِنْ صَدَقَةِ الْيَمَامَةِ أَرْبَعَةِ آلَافٍ بُرًّا وَأَرْبَعَةِ آلَافٍ شَعِيرًا وَأَرْبَعَةِ آلَافٍ تَمْرًا، وَكَانَ فِي كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُجَّاعَةَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ لِمُجَّاعَةَ بْنِ مَرَارَةَ مِنْ بَنِي سُلْمَى إِنِّي أَعْطَيْتُهُ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ مِنْ أَوَّلِ خُمُسٍ يَخْرُجُ مِنْ مُشْرِكِي بَنِي ذُهْلٍ عُقْبَةً مِنْ أَخِيهِ.
مجاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کی دیت مانگنے آئے جسے بنو ذہل میں سے بنی سدوس نے قتل کر ڈالا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کسی مشرک کی دیت دلاتا تو تمہارے بھائی کی دیت دلاتا، لیکن میں اس کا بدلہ تمہیں دلائے دیتا ہوں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ذہل کے مشرکین سے پہلے پہل حاصل ہونے والے خمس میں سے سو اونٹ اسے دینے کے لیے لکھ دیا۔ مجاعہ رضی اللہ عنہ کو ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ بنو ذہل کے مسلمان ہو جانے کے بعد ملے، اور مجاعہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باقی اونٹوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ان کے خلیفہ ہونے کے بعد طلب کئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب (تحریر) دکھائی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجاعہ رضی اللہ عنہ کے یمامہ کے صدقے میں سے بارہ ہزار صاع دینے کے لیے لکھ دیا، چار ہزار صاع گیہوں کے، چار ہزار صاع جو کے اور چار ہزار صاع کھجور کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاعہ کو جو کتاب (تحریر) لکھ کر دی تھی اس کا مضمون یہ تھا: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے، یہ کتاب محمد نبی کی جانب سے مجاعہ بن مرارہ کے لیے ہے جو بنو سلمی میں سے ہیں، میں نے اسے بنی ذہل کے مشرکوں سے حاصل ہونے والے پہلے خمس میں سے سو اونٹ اس کے مقتول بھائی کے عوض میں دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11212) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی دخیل مجہول الحال، اور ہلال لین الحدیث ہیں)

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کی کوئی دیت نہیں، البتہ جو مشرک ذمی ہو یعنی اسلامی حکومت کا باشندہ ہو، اور اس سے جزیہ لیا جاتا ہو تو اس کو اگر کوئی کافر مار ڈالے تو اس پر قصاص ہوگا، یا دیت ہو گی، اور جو مسلمان مار ڈالے تو دیت دینی ہو گی۔

Narrated Mujjaah ibn Mirarah al-Yamani: Mujjaah went to the Prophet ﷺ asking him for the blood-money of his brother whom Banu Sadus from Banu Dhuhl had killed. The Prophet ﷺ said: Had I appointed blood-money for a polytheist, I should have appointed it for your brother. But I shall give you compensation for him. So the Prophet ﷺ wrote (a document) for him that he should be given a hundred camels which were to be acquired from the fifth taken from the polytheists of Banu Dhuhl. So he took a part of them, for Banu Dhuhl embraced Islam. He then asked Abu Bakr for them later on, and brought to him the document of the Prophet ﷺ. So Abu Bakr wrote for him that he should be given one thousand two hundred sa's from the sadaqah of al-Yamamah; four thousand (sa's) of wheat, four thousand (sa's) of barley, and four thousand (sa's) of dates. The text of the document written by the Prophet ﷺ for Mujjaah was as follows: "In the name of Allah, the Beneficent, the Merciful. This document is from Muhammad, the Prophet, to Mujjaah ibn Mirarah of Banu Sulma. I have given him one hundred camels from the first fifth acquired from the polytheist of Banu Dhuhl as a compensation for his brother. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2984


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.