كِتَاب الْخَرَاجِ وَالْإِمَارَةِ وَالْفَيْءِ کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل 28. باب فِي إِخْرَاجِ الْيَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ باب: جزیرہ عرب سے یہود کے نکالنے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) تین چیزوں کی وصیت فرمائی (ایک تو یہ) کہا کہ مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینا، دوسرے یہ کہ وفود (ایلچیوں) کے ساتھ ایسے ہی سلوک کرنا جیسے میں ان کے ساتھ کرتا ہوں۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اور تیسری چیز کے بارے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا یا کہا کہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر تو کیا) لیکن میں ہی اسے بھلا دیا گیا۔ حمیدی سفیان سے روایت کرتے ہیں کہ سلیمان نے کہا کہ مجھے یاد نہیں، سعید نے تیسری چیز کا ذکر کیا اور میں بھول گیا یا انہوں نے ذکر ہی نہیں کیا خاموش رہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 175 (3053)، الجزیة 6 (3168)، المغازي 83 (4431)، صحیح مسلم/الوصیة 5 (1637)، (تحفة الأشراف: 5517)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/222) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں جزیرہ عرب سے یہود و نصاری کو ضرور با لضرور نکال دوں گا اور اس میں مسلمانوں کے سوا کسی کو نہ رہنے دوں گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 21 (1767)، سنن الترمذی/السیر 43 (1607)، (تحفة الأشراف: 10419)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/29، 32، 3/345) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی کی ہم معنی حدیث مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لیکن پہلی حدیث زیادہ کامل ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10419) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک ملک میں دو قبلے نہیں ہو سکتے“، (یعنی مسلمان اور یہود و نصاریٰ عرب میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزکاة 11 (633)، (تحفة الأشراف: 5399)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 223، 285) (ضعیف)» (اس کے راوی قابوس ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
سعید یعنی ابن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ جزیرہ عرب وادی قریٰ سے لے کر انتہائے یمن تک عراق کی سمندری حدود تک ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین کے سامنے یہ پڑھا گیا اور میں وہاں موجود تھا کہ اشہب بن عبدالعزیز نے آپ کو خبر دی ہے کہ مالک کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل نجران ۱؎ کو جلا وطن کیا، اور تیماء سے جلا وطن نہیں کیا، اس لیے کہ تیماء ۲؎ بلاد عرب میں شامل نہیں ہے، رہ گئے وادی قریٰ کے یہودی تو میرے خیال میں وہ اس وجہ سے جلا وطن نہیں کئے گئے کہ ان لوگوں نے وادی قری کو عرب کی سر زمین میں سے نہیں سمجھا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19251) (منقطع)» (امام مالک نے اپنی سند کا ذکر نہیں کیا اس لئے انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎: شام و حجاز کے درمیان ایک گاؤں ہے۔ ۲؎: سمندر کے قریب شام کے نواح میں ایک مقام ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
مالک کہتے ہیں عمر رضی اللہ عنہ نے نجران و فدک کے یہودیوں کو جلا وطن کیا (کیونکہ یہ دونوں عرب کی سرحد میں ہیں)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19252) (ضعیف)» (سند میں امام مالک اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے لیکن اسی معنی کی پچھلی حدیث کی سند صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: موقوف
|