كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب The Book of the Merits of the Companions 41. باب مِنْ فَضَائِلِ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ وَأَهْلِ سَفِينَتِهِمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: باب: جعفر بن ابی طالب اور اسماء بنت عمیس اور ان کی کشتی والوں کی فضیلت۔ Chapter: …. حدثنا عبد الله بن براد الاشعري ، ومحمد بن العلاء الهمداني ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، حدثني بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: " بلغنا مخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن باليمن، فخرجنا مهاجرين إليه انا واخوان لي انا اصغرهما، احدهما ابو بردة والآخر ابو رهم، إما قال: بضعا، وإما قال: ثلاثة وخمسين او اثنين وخمسين رجلا من قومي، قال: فركبنا سفينة، فالقتنا سفينتنا إلى النجاشي بالحبشة، فوافقنا جعفر بن ابي طالب واصحابه عنده، فقال جعفر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثنا هاهنا وامرنا بالإقامة، فاقيموا معنا، فاقمنا معه حتى قدمنا جميعا، قال: فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، حين افتتح خيبر فاسهم لنا او، قال: اعطانا منها وما قسم لاحد غاب عن فتح خيبر منها شيئا، إلا لمن شهد معه إلا لاصحاب سفينتنا مع جعفر واصحابه، قسم لهم معهم، قال: فكان ناس من الناس، يقولون لنا: يعني لاهل السفينة نحن سبقناكم بالهجرة،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنِي بُرَيْدٌ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " بَلَغَنَا مَخْرَجُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ، فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ أَنَا وَأَخَوَانِ لِي أَنَا أَصْغَرُهُمَا، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ وَالْآخَرُ أَبُو رُهْمٍ، إِمَّا قَالَ: بِضْعًا، وَإِمَّا قَالَ: ثَلَاثَةً وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلًا مِنْ قَوْمِي، قَالَ: فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَأَصْحَابَهُ عِنْدَهُ، فَقَالَ جَعْفَرٌ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنَا هَاهُنَا وَأَمَرَنَا بِالْإِقَامَةِ، فَأَقِيمُوا مَعَنَا، فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا، قَالَ: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ فَأَسْهَمَ لَنَا أَوْ، قَالَ: أَعْطَانَا مِنْهَا وَمَا قَسَمَ لِأَحَدٍ غَابَ عَنْ فَتْحِ خَيْبَرَ مِنْهَا شَيْئًا، إِلَّا لِمَنْ شَهِدَ مَعَهُ إِلَّا لِأَصْحَابِ سَفِينَتِنَا مَعَ جَعْفَرٍ وَأَصْحَابِهِ، قَسَمَ لَهُمْ مَعَهُمْ، قَالَ: فَكَانَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، يَقُولُونَ لَنَا: يَعْنِي لِأَهْلِ السَّفِينَةِ نَحْنُ سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے (مکہ سے) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے۔ہم (بھی) آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے۔میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے)۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس) آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین) اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا: ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فرمایا: آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کوئی حصہ نہیں دیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا، ان کے لیے ان (فتح میں شریک ہو نے والوں) کے ساتھ ہی حصہ نکا لا۔کہا: تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں۔۔۔یعنی کشتی والوں کو۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا پتہ چلا جبکہ ہم یمن میں تھے تو ہم میں اور میرے دو بھائی،آپ کی طرف ہجرت کی نیت سے نکلے،میں ان دونوں سے چھوٹا تھا۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم۔۔۔اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا: تریپن یا باون لوگ (نکلے)۔۔کہا: ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا۔اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو۔کہا: ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے۔حتی کہ ہم سب اکٹھے (واپس)آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (عین)اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا:ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر یا:آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ (فتح میں) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا،ان کے لیے ان(فتح میں شریک ہو نے والوں)کے ساتھ ہی حصہ نکالا۔کہا:تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں۔۔۔یعنی کشتی والوں کو۔۔۔کہتے تھے، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
قال: فدخلت اسماء بنت عميس وهي ممن قدم معنا على حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم زائرة، وقد كانت هاجرت إلى النجاشي فيمن هاجر إليه، فدخل عمر على حفصة، واسماء عندها، فقال عمر: حين راى اسماء من هذه؟ قالت: اسماء بنت عميس؟ قال عمر: الحبشية هذه البحرية هذه؟ فقالت اسماء: نعم، فقال عمر: سبقناكم بالهجرة فنحن احق برسول الله صلى الله عليه وسلم منكم، فغضبت وقالت كلمة: كذبت يا عمر كلا والله كنتم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يطعم جائعكم ويعظ جاهلكم وكنا في دار او في ارض البعداء البغضاء في الحبشة، وذلك في الله وفي رسوله وايم الله لا اطعم طعاما ولا اشرب شرابا حتى اذكر ما قلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ونحن كنا نؤذى ونخاف، وساذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم واساله ووالله لا اكذب ولا ازيغ ولا ازيد على ذلك، قال: فلما جاء النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: يا نبي الله، إن عمر قال كذا وكذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس باحق بي منكم وله ولاصحابه هجرة واحدة، ولكم انتم اهل السفينة هجرتان، قالت: فلقد رايت ابا موسى، واصحاب السفينة ياتوني ارسالا يسالوني عن هذا الحديث ما من الدنيا شيء هم به افرح ولا اعظم في انفسهم مما قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال اب وبردة: فقالت اسماء: فلقد رايت ابا موسى، وإنه ليستعيد هذا الحديث مني.قَالَ: فَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا عَلَى حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَةً، وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ، فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا، فَقَالَ عُمَرُ: حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ مَنْ هَذِهِ؟ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ؟ قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هَذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هَذِهِ؟ فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكُمْ، فَغَضِبَتْ وَقَالَتْ كَلِمَةً: كَذَبْتَ يَا عُمَرُ كَلَّا وَاللَّهِ كُنْتُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَكُنَّا فِي دَارِ أَوْ فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ فِي الْحَبَشَةِ، وَذَلِكَ فِي اللَّهِ وَفِي رَسُولِهِ وَايْمُ اللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنُخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَسْأَلُهُ وَوَاللَّهِ لَا أَكْذِبُ وَلَا أَزِيغُ وَلَا أَزِيدُ عَلَى ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَلَهُ وَلِأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ، وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ، قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالًا يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ وَلَا أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ مِمَّا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُ وَبُرْدَةَ: فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسَى، وَإِنَّهُ لَيَسْتَعِيدُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنِّي. کہا: (تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی بیوی) اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پا س گئیں۔ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (رضی اللہ عنہ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو (خوشی کے لئے) باربار سننا چاہتے۔ ابوموسیٰ بیان کرتے ہیں،حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ہمارے ساتھ آنے والوں میں سے تھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ملاقات کے لیے گئیں،چونکہ وہ بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں تو سیدنا عمر ؓ ام المؤمنین حفصہ ؓ کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس ؓ ان کے پاس موجود تھیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اسماء ؓ کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ ؓ نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اوراب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء ؓ بولیں جی ہاں میں وہی ہوں۔ سیدنا عمر ؓ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں، تم نے جھوٹ کہا۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء ؓ نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر ؓ نے اس اس طرح کہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے۔ کیونکہ عمر (ؓ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں (ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو)۔ سیدہ اسماء ؓ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے۔ اوردنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی۔سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو باربار سننا چاہتے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|