صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
15. باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ:
باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔
Chapter: The Virtues Of Fatimah (RA), The Daughter Of The Prophet (SAW)
حدیث نمبر: 6307
Save to word اعراب
حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن الليث بن سعد ، قال ابن يونس: حدثنا ليث، حدثنا عبد الله بن عبيد الله بن ابي مليكة القرشي التيمي ، ان المسور بن مخرمة حدثه، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، وهو يقول: " إن بني هشام بن المغيرة استاذنوني ان ينكحوا ابنتهم علي بن ابي طالب، فلا آذن لهم، ثم لا آذن لهم، ثم لا آذن لهم، إلا ان يحب ابن ابي طالب ان يطلق ابنتي، وينكح ابنتهم، فإنما ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها، ويؤذيني ما آذاها ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ ابْنُ يُونُسَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ التَّيْمِيُّ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَهُوَ يَقُولُ: " إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَلَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ، إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي، وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ، فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ".
لیث بن سعد نے کہا: ہمیں عبد اللہ بن عبید اللہ بن ابی ملیکہ قرشی تیمی نے حدیث بیان کی کہ حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر یہ سنا، آپ فر ما رہت تھے: "بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں، میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبرپر یہ فرماتے ہوئے سنا:"بنو ہشام بن مغیرہ نےمجھ سے اجازت چا ہی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب سے کردیں،میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر میں انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا،الایہ کہ ابن ابی طالب پسند کرے تو میری بیٹی کو طلا ق دے دے اور ان کی بیٹی سے شادی کر لے کیونکہ میری بیٹی میرے جسم کا حصہ ہے جو چیز اسے پریشان کرے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6308
Save to word اعراب
حدثني ابو معمر إسماعيل بن إبراهيم الهذلي ، حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن ابن ابي مليكة ، عن المسور بن مخرمة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما فاطمة بضعة مني، يؤذيني ما آذاها ".حَدَّثَنِي أَبُو مَعْمَرٍ إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، يُؤْذِينِي مَا آذَاهَا ".
عمرو نے ابن ابی ملیکہ سے، انھوں نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اس کو ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔"
حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"فاطمہ میرا جگرگوشہ ہے،جو چیز اسے تکلیف پہنچاتی ہے،وہ میرے لیےبھی تکلیف دہ ہے۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6309
Save to word اعراب
حدثني احمد بن حنبل ، اخبرنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن الوليد بن كثير ، حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي ، ان ابن شهاب حدثه، ان علي بن الحسين حدثه،" انهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنه، لقيه المسور بن مخرمة ، فقال له: هل لك إلي من حاجة تامرني بها؟ قال: فقلت له: لا، قال له: هل انت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فإني اخاف ان يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن اعطيتنيه، لا يخلص إليه ابدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن ابي طالب خطب بنت ابي جهل على فاطمة، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وانا يومئذ محتلم، فقال: إن فاطمة مني، وإني اتخوف ان تفتن في دينها، قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فاثنى عليه في مصاهرته إياه، فاحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني، فاوفى لي، وإني لست احرم حلالا، ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله مكانا واحدا ابدا".حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيُّ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ،" أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، قَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، فَأَحْسَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي، فَأَوْفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا".
محمد بن عمرو بن حلحلہ دؤلی نے کہا: ابن شہاب نے انھیں حدیث بیان کی، انھیں علی بن حسین (زین العابدین رضی اللہ عنہ) نے حدیث بیان کی کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور کہا: آپ کو مجھ سے کوئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے۔ (حضرت علی بن حسین نے) کہا: میں نے ان سے کہا: نہیں (کوئی کا م نہیں) حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار (حفاظت کے لیے) مجھے عطا کریں گے، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لو گ اس (تلوار) کے معاملے میں آپ پرغالب آنے کی کو شش کریں گے اور اللہ کی قسم!اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو کوئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ میری جا ن اپنی منزل پر پہنچ جا ئے۔ (مجھے یا د ہے کہ) جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہو تے ہو ئے ابوجہل کی بیٹی کو نکا ح کا پیغام دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبرپر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور میں ان دنوں بلوغت کو پہنچ چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "فاطمہ مجھ سے ہے (میرے جسم کا ٹکڑا ہے) اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے معاملے میں آزمائش میں ڈالا جا ئے گا۔کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس میں سے اپنے داماد (حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ) کا ذکر فرمایا اور اس کی اپنے ساتھ اس قرابت داری کی تعریف فرمائی اور اچھی طرح تعریف فر ما ئی۔آپ نے فرمایا: " اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچ کہا۔ میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیااور میں کسی حلال کا م کو حرام قرار نہیں دیتا اور کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور لیکن اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (ایک خاوندکے نکا ح میں) اکٹھی نہیں ہو ں گی۔"
ابن شہاب رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،انھیں علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نے بتایا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملے اور کہا: آپ کو مجھ سے کو ئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے۔(حضرت علی بن حسین نے) کہا: میں نے ان سے کہا: نہیں (کو ئی کا م نہیں) حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار (حفاظت کے لیے) مجھے عطا کریں گے،کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لو گ اس (تلوار) کے معاملے میں آپ پرغالب آنے کی کو شش کریں گے اور اللہ کی قسم!اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو کو ئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ میری جا ن اپنی منزل پر پہنچ جا ئے۔(مجھے یا د ہے کہ)جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہو تے ہو ئے ابوجہل کی بیٹی کو نکا ح کا پیغام دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبرپر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور میں ان دنوں بلوغت کو پہنچ چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"فاطمہ مجھ سے ہے(میرے جسم کا ٹکڑا ہے) اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے معاملے میں آزمائش میں ڈالا جا ئے گا۔کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس میں سے اپنے داماد (حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا ذکر فر یا اور اس کی اپنے ساتھ اس قرابت داری کی تعریف فرمائی اور اچھی طرح تعریف فر ئی۔آپ نے فر یا:" اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچ کہا۔ میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیااور میں کسی حلال کا م کو حرام قرار نہیں دیتا اور کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور لیکن اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (ایک خاوندکے نکا ح میں) اکٹھی نہیں ہو ں گی۔"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6310
Save to word اعراب
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني علي بن حسين ، ان المسور بن مخرمة اخبره: " ان علي بن ابي طالب خطب بنت ابي جهل، وعنده فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما سمعت بذلك فاطمة، اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت له: إن قومك يتحدثون انك لا تغضب لبناتك، وهذا علي ناكحا ابنة ابي جهل، قال المسور: فقام النبي صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد، ثم قال: اما بعد، فإني انكحت ابا العاص بن الربيع، فحدثني فصدقني، وإن فاطمة بنت محمد مضغة مني، وإنما اكره ان يفتنوها، وإنها والله لا تجتمع بنت رسول الله، وبنت عدو الله عند رجل واحد ابدا، قال: فترك علي الخطبة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ: " أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ، وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ، أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحًا ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ مُضْغَةٌ مِنِّي، وَإِنَّمَا أَكْرَهُ أَنْ يَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا، قَالَ: فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ ".
شعیب نے زہری سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے علی بن حسین (زین العابدین) نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انھیں بتا یا کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی بیٹی کے لیے نکا ح کا پیغام دیا: جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس (نکاح میں) تھیں تو جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات سنی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ سے کہا: آپ کی قوم (بنو ہاشم) کے لو گ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا اور یہ علی رضی اللہ عنہ ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکا ح کرنے والے ہیں۔حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے جب آپ نے شہادت کے الفاظ ادا کیے تو میں نے سنا، پھر آپ نے فرمایا: " اس کے بعد!میں نے ابو العاص بن ربیع کو رشتہ دیا تو اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچی بات کی، بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری جان کا ایک حصہ ہے۔ مجھے یہ بہت برا لگتا ہے کہ لو گ اسے آزمائش میں ڈالیں۔اور بات یہ ہے کہ اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکا ح میں اکٹھی نہیں ہو ں گی۔" (حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نکا ح کا ارادہ ترک کر دیا۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو نکاح کاپیغام دیا: جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کے پاس (نکاح میں) تھیں تو جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ بات سنی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ سے کہا: آپ کی قوم (بنو ہاشم) کے لو گ یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا اور یہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو ابو جہل کی بیٹی سے نکا ح کرنے والے ہیں۔حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے جب آپ نے شہادت کے الفاظ ادا کیے تو میں نے سنا، پھر آپ نے فر یا:" اس کے بعد!میں نے ابو العاص بن ربیع کو رشتہ دیا تو اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچی بات کی، بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری جان کا ایک حصہ ہے۔ مجھے یہ بہت برا لگتا ہے کہ لو گ اسے آزمائش میں ڈالیں۔اور بات یہ ہے کہ اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکا ح میں اکٹھی نہیں ہو ں گی۔"(حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نکا ح کا ارادہ ترک کر دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6311
Save to word اعراب
وحدثنيه ابو معن الرقاشي ، حدثنا وهب يعني ابن جرير ، عن ابيه ، قال: سمعت النعمان يعني ابن راشد يحدث، عن الزهري ، بهذا الإسناد نحوه.وحَدَّثَنِيهِ أَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ يَعْنِي ابْنَ جَرِيرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
نعمان بن راشد نے زہری سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6312
Save to word اعراب
حدثنا منصور بن ابي مزاحم ، حدثنا إبراهيم يعني ابن سعد ، عن ابيه ، عن عروة ، عن عائشة . ح وحدثني زهير بن حرب واللفظ له، حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابيه ، ان عروة بن الزبير حدثه، ان عائشة حدثته، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، دعا فاطمة ابنته، فسارها، فبكت، ثم سارها، فضحكت، فقالت عائشة: فقلت لفاطمة : ما هذا الذي سارك به رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فبكيت، ثم سارك، فضحكت، قالت: سارني فاخبرني بموته، فبكيت ثم سارني، فاخبرني اني اول من يتبعه من اهله فضحكت ".حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي مُزَاحِمٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ، فَسَارَّهَا، فَبَكَتْ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَضَحِكَتْ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِفَاطِمَةَ : مَا هَذَا الَّذِي سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَبَكَيْتِ، ثُمَّ سَارَّكِ، فَضَحِكْتِ، قَالَتْ: سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي بِمَوْتِهِ، فَبَكَيْتُ ثُمَّ سَارَّنِي، فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ مَنْ يَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ فَضَحِكْتُ ".
عروہ بن زبیر نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا یا اور ان کو راز داری سے (سر گوشی کرتے ہو ئے) کوئی بات کہی تو حضرت فاطمہ روپڑیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو رازداری سے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: یہ کیا بات تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو راز داری سے کہی اور آپ روپڑیں، پھر دوبارہ رازداری سے بات کی تو ہنس دیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کا ن میں بات کی اور اپنی موت کی خبر دی تو میں روپڑی، پھر دوسری بار میرے کان میں بات کی اور مجھے بتا یا کہ ان کے گھر والوں میں سے پہلی میں ہو ں گی جو ان سے جا ملوں گی تو میں ہنس دی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بلا یا اور ان کو راز داری سے (سر گوشی کرتے ہو ئے) کو ئی بات کہی تو حضرت فاطمہ روپڑیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ان کو رازداری سے کو ئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: یہ کیا بات تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو راز داری سے کہی اور آپ روپڑیں،پھر دوبارہ رازداری سے بات کی تو ہنس دیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کا ن میں بات کی اور اپنی موت کی خبر دی تو میں روپڑی، پھر دوسری بار میرے کان میں بات کی اور مجھے بتا یا کہ ان کے گھر والوں میں سے پہلی میں ہو ں گی جو ان سے جا ملوں گی تو میں ہنس دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6313
Save to word اعراب
حدثنا ابو كامل الجحدري فضيل بن حسين ، حدثنا ابو عوانة ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " كن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم عنده، لم يغادر منهن واحدة، فاقبلت فاطمة تمشي ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، فلما رآها رحب بها، فقال: مرحبا بابنتي، ثم اجلسها عن يمينه، او عن شماله، ثم سارها، فبكت بكاء شديدا، فلما راى جزعها سارها الثانية فضحكت، فقلت لها: خصك رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين نسائه بالسرار، ثم انت تبكين، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، سالتها: ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كنت افشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره، قالت: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: عزمت عليك بما لي عليك من الحق لما حدثتني، ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: اما الآن فنعم اما حين سارني في المرة الاولى فاخبرني، ان جبريل كان يعارضه القرآن في كل سنة مرة، او مرتين، وإنه عارضه الآن مرتين، وإني لا ارى الاجل إلا قد اقترب، فاتقي الله واصبري، فإنه نعم السلف انا لك، قالت: فبكيت بكائي الذي رايت، فلما راى جزعي سارني الثانية، فقال يا فاطمة: اما ترضي ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، او سيدة نساء هذه الامة، قالت: فضحكت ضحكي الذي رايت ".حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ، لَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي مَا تُخْطِئُ مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ بِهَا، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى جَزَعَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ لَهَا: خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ بِالسِّرَارِ، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلْتُهَا: مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: مَا كُنْتُ أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ لَمَا حَدَّثْتِنِي، مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى فَأَخْبَرَنِي، أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ الْآنَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنِّي لَا أُرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ: أَمَا تَرْضَيْ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَتْ: فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ ".
ابو عوانہ نے فراس سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج آپ کے پاس موجود تھیں، ان میں سے کوئی (وہاں سے) غیر حاضر نہیں ہوئی تھی، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فرمایا: "میری بیٹی کو خوش آمدید!" پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا، پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں۔جب آپ نے ان کی شدید نے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کوئی بات کہی تو ہنس پڑیں۔ (بعد میں) میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، آپ روئیں (کیوں؟) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ سے) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا:؟ انھوں نے کہا: میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا) الایہ کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا: اب (اگر آپ پوچھتی ہیں) تو ہاں، پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا: "جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل (مقررہ وقت) قریب آگیا ہے، اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا، میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔" (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا: "فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا (فرمایا:) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟"کہا: تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم کی تمام بیویاں آپ کے پاس تھیں،ان میں سے کوئی پیچھے نہیں رہ گئی تھی تواتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فر یا:"میری بیٹی کو خوش آمدید!" پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا،پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں۔جب آپ نے ان کی شدید نے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کو ئی بات کہی تو ہنس پڑیں۔(بعد میں) میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، آپ روئیں (کیوں؟) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ سے) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا:؟ انھوں نے کہا: میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں،پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا) الایہ کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا:اب(اگر آپ پوچھتی ہیں)تو ہاں،پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا:"جبریل ؑ آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل(مقررہ وقت) قریب آگیا ہے،اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا،میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔"(حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا:اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا،پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا:"فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا(فرمایا:) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟"کہا:تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6314
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وحدثنا عبد الله بن نمير ، عن زكرياء . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا زكرياء ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " اجتمع نساء النبي صلى الله عليه وسلم فلم يغادر منهن امراة، فجاءت فاطمة تمشي كان مشيتها مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: مرحبا بابنتي، فاجلسها عن يمينه، او عن شماله، ثم إنه اسر إليها حديثا، فبكت فاطمة، ثم إنه سارها فضحكت ايضا، فقلت لها: ما يبكيك؟ فقالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما رايت كاليوم فرحا اقرب من حزن، فقلت لها حين بكت: اخصك رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديثه دوننا ثم تبكين، وسالتها عما قال، فقالت: ما كنت لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا قبض سالتها، فقالت: إنه كان حدثني ان جبريل كان يعارضه بالقرآن كل عام مرة، وإنه عارضه به في العام مرتين، ولا اراني إلا قد حضر اجلي، وإنك اول اهلي لحوقا بي، ونعم السلف انا لك، فبكيت لذلك، ثم إنه سارني، فقال: الا ترضين ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، او سيدة نساء هذه الامة، فضحكت لذلك ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ امْرَأَةً، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي كَأَنَّ مِشْيَتَهَا مِشْيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، فَأَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ إِنَّهُ أَسَرَّ إِلَيْهَا حَدِيثًا، فَبَكَتْ فَاطِمَةُ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ أَيْضًا، فَقُلْتُ لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ فَرَحًا أَقْرَبَ مِنْ حُزْنٍ، فَقُلْتُ لَهَا حِينَ بَكَتْ: أَخَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَدِيثِهِ دُونَنَا ثُمَّ تَبْكِينَ، وَسَأَلْتُهَا عَمَّا قَالَ، فَقَالَتْ: مَا كُنْتُ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا قُبِضَ سَأَلْتُهَا، فَقَالَتْ: إِنَّهُ كَانَ حَدَّثَنِي أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ بِالْقُرْآنِ كُلَّ عَامٍ مَرَّةً، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ بِهِ فِي الْعَامِ مَرَّتَيْنِ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ حَضَرَ أَجَلِي، وَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لُحُوقًا بِي، وَنِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، فَبَكَيْتُ لِذَلِكَ، ثُمَّ إِنَّهُ سَارَّنِي، فَقَالَ: أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَضَحِكْتُ لِذَلِكَ ".
زکریا نے فراس سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دوبار دور کیا، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آ گیا ہے، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج مطہرات ؓن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں)، کوئی بیوی ایسی نہ تھیں جو پاس نہ ہو کہ اتنے میں سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ آئیں اور وہ بالکل اسی طرح چلتی تھیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو مرحبا کہا اور فرمایا کہ مرحبا میری بیٹی۔ پھر ان کو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف بٹھایا اور ان کے کان میں آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ بہت روئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ حال دیکھا تو دوبارہ ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنسیں۔ میں نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تم سے راز کی باتیں کیں، پھر تم روتی ہو۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنے والی نہیں ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو میں نے ان کو قسم دی اس حق کی جو میرا ان پر تھا اور کہا کہ مجھ سے بیان کرو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے فرمایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ اب البتہ میں بیان کروں گی۔ پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کان میں یہ فرمایا کہ جبرائیل ؑ ہر سال ایک بار یا دو بار مجھ سے قرآن کا دور کرتے تھے اور اس سال انہوں نے دوبار دور کیا، اور میں خیال کرتا ہوں کہ میرا (دنیا سے جانے کا) وقت قریب آ گیا ہے، پس اللہ سے ڈرتی رہ اور صبر کر، میں تیرا بہت اچھا منتظر ہوں۔ یہ سن کر میں رونے لگی جیسے تم نے دیکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا رونا دیکھا تو دوبارہ مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا کہ اے فاطمہ! تو اس بات سے راضی نہیں ہے کہ تو مومنوں کی عورتوں کی یا اس امت کی عورتوں کی سردار ہو؟ یہ سن کر میں ہنسی جیسے کہ تم نے دیکھا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.