روزہ دار کا روزہ توڑنے والے افعال کے ابواب کا مجموعہ 1351. اس بات کا بیان کہ سینگی لگوانے سے سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ـ
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کر دہ غلام سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک کی اٹھارہ تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بقیع کی طرف گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سینگی لگواتے ہوئے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔“ یہ ولید رحمه الله کی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ختم ہو جاتا ہے ـ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عباس بن عبد العظیم عنبری کو سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے علی بن عبدﷲ کو فرماتے ہوئے سنا ”أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ“ سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ مجھے اس مسئلہ میں اس سے بڑھ کر صحیح کسی حدیث کا علم نہیں ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ روایت معاویہ بن سلام نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
امام صاب نے معاویہ بن سلام کی حدیث کی سند بیان کی ہے اور کہتے ہیں کہ میں نے یہ مکمّل باب کتاب الکبیر میں بیان کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یقیناً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث صحیح ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔“ اس مسئلہ میں ہمارے ایک مخالف نے یہ کہا کہ ہے کہ سینگی لگوانے سے روزے دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا اور اُس نے دلیل یہ دی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں سینگی لگوائی ہے جبکہ آپ حالت احرام میں بھی تھے اور یہ روایت اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ سینگی لگوانے سے روزے دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت سینگی لگوائی تھی جبکہ آپ سفر کے دوران روزہ رکھے ہوئے تھے۔ آپ اُس وقت مقیم نہیں تھے۔ کیونکہ آپ حالت احرام میں اپنے شہر میں کبھی مقیم نہیں رہے بلکہ آپ حالت احرام میں سفر میں تھے۔ جبکہ مسافر نے اگرچہ روزے کی نیت کی ہو اور دن کا کچھ حصّہ گزر بھی چکا ہو اور وہ کھانے پینے سے رکا ہوا ہو تو کھانے پینے سے اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اور بعض علماء کو جو وہم ہوا ہے وہ صحیح نہیں ہے کہ مسافر جب روزہ رکھ لے تو پھر اُس کے لئے اس روزے کومکمّل کیے بغیر کھولنا جائز نہیں ہے۔ لہٰذا اگر مسافر کے لئے روزے کی نیت کرنے کے بعد کھانا پینا جائز ہے جبکہ دن کا کچھ حصّہ گزر بھی چکا ہو اور وہ روزہ رکھے ہوئے ہو تو کھانے پینے سے اُس کا روزہ ختم ہو جائے گا، تو پھر اُس کے لئے سفر کے دوران روزے کی حالت میں سینگی لگوانا بھی جائز ہے اگرچہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہو ـ اور اس بات کی دلیل کہ مسافر کے لئے دوران سفر کھانا کھا کر یا مشروب پی کر روزہ کھولنا جائز ہے جبکہ وہ روزے کی حالت میں دن کا کچھ حصّہ گزار بھی چکا ہو۔ (درج ذیل حدیث ہے۔)
تخریج الحدیث: صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی االلہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شدید گرمی والے دن بارش کے پانی کی نہر پر تشریف لائے جبکہ چلنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگوں نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا تو آپ اُس نہر پر کھڑے ہوگئے تو نا گہاں لوگوں کی ایک جماعت بھی پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو، پانی پی لو۔“ تو وہ آپ کی طرف دیکھنے لگے (کہ آپ خود کیا عمل کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ بیشک میں سوار ہوں اور تم پیدل چل رہے ہو، اور میں تمہاری نسبت آسانی اور سہولت میں ہوں، تم پانی پی لو۔“ وہ آپ کی طرف دیکھتے رہے کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں۔ پھر جب اُنہوں نے پانی پینے سے احتراز کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم موڑا اور سواری سے نیچے اُتر آئے اور پانی پی لیا۔ اور (یہ دیکھ کر) لوگوں نے بھی پانی پی لیا۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی روایات کتاب الکبیر کی کتاب الصیام میں بیان کر دی ہیں ـ کیا کسی جاہل آدمی کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ روزے دار کے لئے مشروب پینا جائز ہے اور مشروب پینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو پانی پینے کا حُکم دیا تھا جبکہ آپ روزے سے تھے۔ جب اُنہوں نے پانی پینے سے احتراز کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں ہی پانی پی لیا اور اُنہوں نے بھی پی لیا۔ لہٰذا جو شخص علمی بصیرت رکھتا ہو اور فقہی سو جھ بوجھ کا مالک ہے وہ جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پانی پینے پر مجبور ہوگئے تھے حالانکہ اُنہوں نے روزے کی نیت کی ہوئی تھی اور دن کا کچھ حصّہ وہ گزارچکے تھے۔ اور اُن کے لئے روزہ کھولنا جائز تھا کیونکہ وہ سفر میں تھے مقیم نہیں تھے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سفر کے دوران روزے کی حالت میں سینگی لگوانا جائز تھا اگرچہ سینگی لگوانے سے روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جس شخص کے لئے پانی پینا جائز ہے اگر چہ پانی سے روزہ ختم ہو جاتا ہے تو اُس شخص کے لئے سینگی لگوانا بھی جائز ہے اگرچہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ عراقی علماء کی اس مسئلہ میں یہ دلیل کہ روزہ پیٹ میں داخل ہونے والی چیز سے ٹوٹتا ہے اور پیٹ سے نکلنے والی چیز سے نہیں ٹوٹتا تو یہ قول قائل کی جہالت اور غفلت کی دلیل ہے۔ اور کم علم، کم فہم لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے ـ اس شخص کا یہ قول اللہ تعالیٰ کی کتاب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور تمام اہل اللہ مسلمانوں کے قول کے خلاف ہے ـ جبکہ ان الفاظ کو ان کے ظاہر پر محمول کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا ہے کہ روزے کے دن میں مباشرت کرنا جماع کے حُکم میں ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں (دن کے وقت) جماع کرنے والے شخص پر ایک گردن آزاد کرنا واجب کیا ہے اگر اس کے پاس طاقت ہو ـ اور اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفّارہ واجب کیا ہے ـ حالانکہ جماع کرنے والے کے پیٹ میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی بلکہ اس سے مٹی نکلتی ہے اگر منی کا خروج ہو اور کبھی بغیر منی نکالے بھی عورت کی شرم گاہ میں جماع کر سکتا ہے تو اس وقت اس کے پیٹ سے بھی منی نہیں نکلتی حالانکہ دونوں شرم گاہوں کا بغیر مٹی ٹپکائے مل جانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور کفّارہ واجب ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس حالت میں جماع کرنے والے کے پیٹ میں نہ کوئی چیز داخل ہوتی ہے اور نہ کچھ نکلتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ قصداً قے کرنے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اہل علم اور مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ عمداً قے کرنے سے روزے دار کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اگر روزے دار کا روزہ صرف پیٹ میں داخل ہونے والی چیز ہی سے ٹوٹنا ہو تو پھر جماع اور قے سے روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ کچھ جاہل لوگوں نے اس مسئلے میں ایک اور عجوبہ بیان کیا ہے۔ ان کے خیال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یہ فرمان اس لئے جاری کیا تھا کہ وہ دونوں غیبت کر رہے تھے۔ جب اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ تو کہتا ہے کہ غیبت سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس شخص سے کہا جائے گا کہ اگر تمہارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے“ کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں غیبت کر رہے تھے ـ اور غیبت سے تمہارے نزدیک روزہ نہیں ٹوٹتا تو کیا کوئی ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ یہ بات کرسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو بتایا ہو کہ غیبت کرنے والے دونوں افراد کا روز ٹوٹ گیا ہے اور یہ شخص کہے کہ وہ دونوں روزے دار ہیں ان کا روزہ نہیں ٹوٹا۔ اس طرح اُس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے رسول کی اطاعت و اتباع واجب کی ہے اور آپ کی اتباع کرنے پر ہدایت دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کے مخالفین کو وعید سنائی ہے اور آپ کے فیصلے پر دلی تنگی محسوس کرنے والے کے ایمان کی نفی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے «فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ» [ سورة النساء: 65 ] ”آپ کے رب کی قسم، وہ مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔“ اور ﷲ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول کے فیصلہ شدہ امور میں کسی شخص کو اختیار نہیں دیا ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے «وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ» [ سورة الأحزاب: 32 ] ”اور کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمنہ عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اُن کے لئے اپنے معاملے میں ان کا کوئی اختیار رہے۔“ اور اس حدیث سے استدلال کرنے والے شخص نے اپنے پاس موجود کسی شبیہ اور تاویل کے بغیر صریحاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے۔ اس حدیث میں اس کی اس تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کو غیبت کر نے کی وجہ سے کہا کہ ان کا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔ پھر خود اس شخص کا گمان ہے کہ غیبت سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس طرح اس شخص نے بغیر کسی شبہ اور تاویل کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح مخالفت کی ہے ـ جناب معتمر بن سلیمان کی سند سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دارکے لئے (اپنی بیوی کا) بوسہ لینے اور سینگی لگوانے کی رخصت دی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ روزے دار کے لئے سینگی لگوانے کی رخصت ہے۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں جو حدیث میں اضافہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں۔ شاید کہ تعتمر راوی نے یہ حدیث اپنے حافظے سے بیان کی ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ان الفاظ کا اندراج ہوگیا ہو یا انہوں نے حدیث بیان کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے ہوں کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ روزے دار کو سینگی لگوانے کی رخصت دی گئی ہے۔ تو شاگردوں نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کے الفاظ اچھی طرح لکھے نہ ہوں، اس طرح حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ ہوگیا۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس سے زیادہ الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ میں نے امام صنعانی سے پوچھا، اور سینگی لگوانے کی رخصت ہے؟ تو وہ سخت ناراض ہوئے اور اس حدیث میں سینگی لگوانے کی رخصت کے الفاظ مذکورہ ہونے کا انکار کیا اور اس بات کی دلیل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت میں سینگی لگوانے کا ذکر موجود نہیں ہے (وہ درج ذیل روایت ہے)۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ روزے دار کو سینگی لگوانے اور بوسہ لینے کی رخصت دی گئی ہے۔ یہ روایت کہ روزے دار کو سینگی لگوانے اور بوسہ لینے کی رخصت دی گئی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک موجود نہیں ہے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت دی ہو)۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سینگی لگوانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام سینگی لگوانا ناپسند کرتے تھے۔ یا فرمایا کہ وہ کمزوری سے ڈرتے تھے (اس لئے سینگی نہیں لگواتے تھے ـ)
تخریج الحدیث: اسناده صحيح موقوف
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سینگی لگوانے کو صرف کمزوری کے ڈر کی وجہ سے ناپسند کیا گیا ہے ـ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، لہٰذا جناب قتادہ کی حدیث اور جناب یحیٰی کی حمید اور ضحاک بن عثمان سے حدیث اس بات یر دلالت کرتی ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روزے دار کے لئے سینگی لگوانے کی رخصت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان نہیں کی۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے دار کے لئے سینگی لگوانے کی رخصت نقل کریں اور پھر خود ہی کہہ دیں کہ صحا بہ کرام کمزوری کے ڈرسے سینگی لگوانا ناپسند کرتے تھے ـ کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوانا بغیر کسی استثناء اور شرط کے جائز قرار دیا ہے تو پھر یہ ساری مخلوق کے لئے جائز اور مباح ہے ـ پھر یہ کہنا جائز اور درست نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو سینگی لگوانے کی رخصت دی ہے جبکہ کمزوری کے ڈر کی وجہ سے یہ مکروہ ہے ـ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت اور اباحت سے اُس شخص کومستثنٰی قرار نہیں دیا جسے کمزوری کا ڈر ہو۔ لہٰذا اگر سیدنا ابوسعید رضی اﷲ عنہ سے یہ بات صحیح ثابت ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو سینگی لگوانے کی رخصت دی ہے تو پھر اس قول کی زد اور انجام یہ ہوگا کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ روزے دار کے لئے سینگی لگوانے کو مکروہ قرار دیتے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دار کو اس کی رخصت دی ہے ـ اور یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کہنا قطعاً جائز نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک چیز کی رخصت نقل کریں اور خود اُسے مکروہ اور ناپسند یدہ خیال کریں۔ جناب زید بن اسلم عطاء بن یسار کے واسطے سے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تین چیز یں روزے دار کا روزہ توڑ دیتی ہیں، سینگی لگوانا، قے کرنا اور احتلام کا ہونا۔“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح موقوف
امام صاحب مذکورہ بالا روایت کی سند ذکر کرتے ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ سند غلط ہے۔ اس سند میں جناب عظاء بن یسار اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا ذکر درست نہیں ہے۔ ثقہ علماء عبدالرحمان بن زید کی روایت کو قابل حجت نہیں مانتے کیونکہ سند کو حفظ رکھنے میں اس کا حافظہ نہایت کمزور ہے۔ یہ شخص ایسا تھا کہ عبادت و ریاضت اور وعظ و نصیحت کرنا اس کا مشغلہ اور زاہدانہ طرز زندگی گزارتا تھا۔ یہ ان پختہ کار محدثین میں سے نہیں تھا جو اسانید حفظ کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
یہی روایت امام سفیان بن سعید ثوری رحمه الله بھی بیان کرتے ہیں اور امام سفیان ثوری رحمه الله ان علماء میں سے ہیں کہ ان کے زمانے میں کوئی عالم دین حفظ داتقان میں ان کی برابری نہیں کرتا تھا۔ وہ زید بن اسلم سے اور وہ اپنے ایک ساتھی سے بیان کرتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے قے آجائے اُس کا روزہ نہیں ٹوٹتا جس شخص کو احتلام ہوگیا اُس کا روزہ نہیں ٹوٹا اور جس نے سینگی لگوائی اُس کا روزہ بھی نہیں ٹوٹتا ـ“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اگر یہ روایت عطاء بن یسار کی سند سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہوتی تو امام سفیان ثوری ان دونوں حضرات کی وضاحت کر دیتے اور ان کے ناموں سے خاموشی اختیار نہ کرتے۔ اس طرح نہ کہتے کہ وہ اپنے ایک ساتھی سے روایت کرتے ہیں اور وہ ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں ـ روایات کے بیان میں یہ مجہول طریقہ کار تو اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے جبکہ راوی غیر مشہور ہو (جبکہ امام عطاء اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی شہرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
امام سفیان ثوری رحمه الله زید بن اسلم کے واسطے سے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
امام سفیان ثوری رحمه الله جناب زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ایک ساتھی نے بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس شخص نے قے کی اور جس شخص کو احتلام ہوگیا اور جس نے سینگی لگوائی تو اُن کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔ جناب عبد الرزاق نے اس روایت کو مرفوع بیان نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
جناب عبدالرزاق اپنی سند سے عطاء بن یسار کے واسطے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سے مذکورہ بالا کی طرح روایت بیان کرتے ہیں ـ
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف جدا
جناب جعفر بن عون اپنی سند سے عطاء بن یسار کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف لارساله
جناب عطاء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں روزے دار کا روزہ نہیں توڑتیں، احتلام کا ہونا، قے کا آنا اور اور سینگی لگوانا۔“ جناب محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ اور عطاء بن یسار کے واسطے سے غیر محفوظ ہے۔ ہمارے نزدیک محفوظ روایت امام سفیان ثوری اور معمرکی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده ضعيف مرسل
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ روزے دار کے لئے سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح موقوف
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ روزے دار کی سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح موقوف
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ روزے دار کو سینگی لگوانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح
جناب ابومتوکل سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ـ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت نہیں کرتے ـ میرے خیال میں معمر نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے ـ
تخریج الحدیث: اسناده صحيح موقوف
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کی اٹھارہ تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تو آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو سینگی لگوارہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگوانے اور سینگی لگانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا ہے ـ“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ کھل گیا ہے۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس باب کے آخر تک ہر وہ روایت جس کے بارے میں میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ تو وہ حدیث ہماری اس کتاب کی شرط کے مطابق نہیں ہے۔ امام حسن بصری رحمه الله نے سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے احادیث نہیں سنیں، امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث میرے نزدیک اس سند سے صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح
|