صحيح ابن خزيمه
روزہ دار کا روزہ توڑنے والے افعال کے ابواب کا مجموعہ
1351.
اس بات کا بیان کہ سینگی لگوانے سے سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے
حدیث نمبر: 1966
أَنَّ أَحْمَدَ بْنَ عَبْدَةَ حَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى نَهَرٍ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ فِي يَوْمٍ صَائِفٍ، وَالْمُشَاةُ كَثِيرٌ، وَالنَّاسُ صِيَامٌ، فَوَقَفَ عَلَيْهِ، فَإِذَا فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ، اشْرَبُوا". فَجَعَلُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ. قَالَ:" إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي رَاكِبٌ وَأَنْتُمْ مُشَاةٌ، وَإِنِّي أَيْسَرُكُمُ، اشْرَبُوا". فَجَعَلُوا يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ مَا يَصْنَعُ. فَلَمَّا أَبَوْا، حَوَّلَ وَرِكَهُ، فَنَزَلَ وَشَرِبَ وَشَرِبَ النَّاسُ . وَخَبَرُ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ خَرَّجْتُهُمَا فِي كِتَابِ الصِّيَامِ فِي كِتَابِ الْكَبِيرِ. أَفَيَجُوزُ لِجَاهِلٍ أَنْ يَقُولَ: الشُّرْبُ جَائِزٌ لِلصَّائِمِ، وَلا يُفَطِّرُ الشُّرْبُ الصَّائِمَ؟ إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَمَرَ أَصْحَابَهُ وَهُوَ صَائِمٌ بِالشُّرْبِ , فَلَمَّا امْتَنَعُوا شَرِبَ وَهُوَ صَائِمٌ، وَشَرِبُوا. فَمَنْ يَعْقِلُ الْعِلْمَ، وَيَفْهَمُ الْفِقْهَ، يَعْلَمُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَارَ مُضْطَرًّا وَأَصْحَابُهُ لِشُرْبِ الْمَاءِ , وَقَدْ كَانُوا نَوَوَا الصَّوْمَ، وَمَضَى بِهِمْ بَعْضُ النَّهَارِ، وَكَانَ لَهُمْ أَنْ يُفْطِرُوا، إِذْ كَانُوا فِي السَّفَرِ لا فِي الْحَضَرِ. وَكَذَلِكَ كَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحْتَجِمَ وَهُوَ صَائِمٌ فِي السَّفَرِ، وَإِنْ كَانَتِ الْحِجَامَةُ تُفْطِرُ الصَّائِمَ ؛ لأَنَّ مَنْ جَازَ لَهُ الشُّرْبُ وَإِنْ كَانَ الشُّرْبُ مُفْطِرًا، جَازَ لَهُ الْحِجَامَةُ وَإِنْ كَانَ بِالْحِجَامَةِ مُفْطِرًا، فَأَمَّا مَا احْتَجَّ بِهِ بَعْضُ الْعِرَاقِيِّينَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ أَنَّ الْفِطْرَ مِمَّا يَدْخُلُ، وَلَيْسَ مِمَّا يَخْرُجُ، فَهَذَا جَهْلٌ وَإِغْفَالٌ مِنْ قَائِلِهِ، وَتَمْوِيهٌ عَلَى مَنْ لا يُحْسِنُ الْعِلْمَ، وَلا يَفْهَمُ الْفِقْهَ، وَهَذَا الْقَوْلُ مِنْ قَائِلِهِ خِلافُ دَلِيلِ كِتَابِ اللَّهِ، وَخِلافُ سُنَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخِلافُ قَوْلِ أَهْلِ الصَّلاةِ مِنْ أَهْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، إِذَا جُعِلَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ عَلَى ظَاهِرِهَا. قَدْ دَلَّ اللَّهُ فِي مُحْكَمِ تَنْزِيلِهِ أَنَّ الْمُبَاشَرَةَ هِيَ الْجِمَاعُ فِي نَهَارِ الصِّيَامِ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَوْجَبَ عَلَى الْمُجَامِعِ فِي رَمَضَانَ عِتْقَ رَقَبَةٍ إِنْ وَجَدَهَا، وَصِيَامَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِنْ لَمْ يَجِدِ الرَّقَبَةَ، أَوْ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا إِنْ لَمْ يَسْتَطِعِ الصَّوْمَ، وَالْمُجَامِعُ لا يَدْخُلُ جَوْفَهُ شَيْءٌ فِي الْجِمَاعِ، إِنَّمَا يَخْرُجُ مِنْهُ مَنِيٌّ إِنْ أَمْنَى. وَقَدْ يُجَامِعُ مِنْ غَيْرِ إِمْنَاءٍ فِي الْفَرْجِ، فَلا يَخْرُجُ مِنْ جَوْفِهِ أَيْضًا مَنِيٌّ، وَالْتِقَاءُ الْخِتَانَيْنِ مِنْ غَيْرِ إِمْنَاءٍ يُفَطِّرُ الصَّائِمَ، وَيُوجِبُ الْكَفَّارَةَ، وَلا يَدْخُلُ جَوْفَ الْمُجَامِعِ شَيْءٌ وَلا يَخْرُجُ مِنْ جَوْفِهِ شَيْءٌ إِذَا كَانَ الْمُجَامِعُ هَذِهِ صِفَتُهُ، وَالنَّبِيُّ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْلَمَ أَنَّ الْمُسْتَقِيءَ عَامِدًا يُفَطِّرُهُ الاسْتِقَاءُ عَلَى الْعَمْدِ، وَاتَّفَقَ أَهْلُ الصَّلاةِ وَأَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الاسْتِقَاءَ عَلَى الْعَمْدِ يُفَطِّرُ الصَّائِمَ، وَلَوْ كَانَ الصَّائِمُ لا يُفَطِّرُهُ إِلا مَا يَدْخُلُ جَوْفَهُ، كَانَ الْجِمَاعُ وَالاسْتِقَاءُ لا يُفَطِّرَانِ الصَّائِمَ. وَجَاءَ بَعْضُ أَهْلِ الْجَهْلِ بِأُعْجُوبَةٍ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ، فَزَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ:" أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ"، لأَنَّهُمَا كَانَا يَغْتَابَانِ، فَإِذَا قِيلَ لَهُ: فَالْغِيبَةُ تُفْطِرُ الصَّائِمَ؟ زَعَمَ أَنَّهَا لا تُفْطِرُ الصَّائِمَ. فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكَ إِنَّمَا قَالَ:" أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ" لأَنَّهُمَا كَانَا يَغْتَابَانِ، وَالْغِيبَةُ عِنْدَكَ لا تُفَطِّرُ الصَّائِمَ، فَهَلْ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ، يَزْعُمُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ أُمَّتَهُ أَنَّ الْمُغْتَابَيْنِ مُفْطِرَانِ، وَيَقُولُ هُوَ: بَلْ هُمَا صَائِمَانِ غَيْرُ مُفْطِرَيْنِ، فَخَالَفَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ طَاعَتَهُ وَاتِّبَاعَهُ، وَوَعَدَ الْهُدَى عَلَى اتِّبَاعِهِ، وَأَوْعَدَ عَلَى مُخَالِفِيهِ، وَنَفَى الإِيمَانَ عَمَّنْ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ حَرَجًا مِنْ حُكْمِهِ، فَقَالَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 الآيَةَ وَلَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ جَلَّ وَعَلا لأَحَدٍ خَيْرَةً فِيمَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ سورة الأحزاب آية 36. وَالْمُحْتَجُّ بِهَذَا الْخَبَرِ إِنَّمَا صَرَّحَ بِمُخَالَفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ نَفْسِهِ، بِلا شُبْهَةٍ وَلا تَأْوِيلٍ يَحْتَمِلُ الْخَبَرَ الَّذِي ذَكَرَهُ، إِذْ زَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ لِلْحَاجِمِ وَالْمَحْجُومِ: مُفْطِرَانِ لِعِلَّةِ غِيبَتِهِمَا، ثُمَّ هُوَ زَعَمَ أَنَّ الْغِيبَةَ لا تُفَطِّرُ، فَقَدْ جَرَّدَ مُخَالَفَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلا شُبْهَةٍ وَلا تَأْوِيلٍ
سیدنا ابوسعید خدری رضی االلہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شدید گرمی والے دن بارش کے پانی کی نہر پر تشریف لائے جبکہ چلنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ تھی اور لوگوں نے روزہ بھی رکھا ہوا تھا تو آپ اُس نہر پر کھڑے ہوگئے تو نا گہاں لوگوں کی ایک جماعت بھی پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو، پانی پی لو۔“ تو وہ آپ کی طرف دیکھنے لگے (کہ آپ خود کیا عمل کرتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ بیشک میں سوار ہوں اور تم پیدل چل رہے ہو، اور میں تمہاری نسبت آسانی اور سہولت میں ہوں، تم پانی پی لو۔“ وہ آپ کی طرف دیکھتے رہے کہ آپ کیا عمل کرتے ہیں۔ پھر جب اُنہوں نے پانی پینے سے احتراز کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم موڑا اور سواری سے نیچے اُتر آئے اور پانی پی لیا۔ اور (یہ دیکھ کر) لوگوں نے بھی پانی پی لیا۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم کی روایات کتاب الکبیر کی کتاب الصیام میں بیان کر دی ہیں ـ کیا کسی جاہل آدمی کے لئے یہ کہنا جائز ہے کہ روزے دار کے لئے مشروب پینا جائز ہے اور مشروب پینے سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو پانی پینے کا حُکم دیا تھا جبکہ آپ روزے سے تھے۔ جب اُنہوں نے پانی پینے سے احتراز کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کی حالت میں ہی پانی پی لیا اور اُنہوں نے بھی پی لیا۔ لہٰذا جو شخص علمی بصیرت رکھتا ہو اور فقہی سو جھ بوجھ کا مالک ہے وہ جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پانی پینے پر مجبور ہوگئے تھے حالانکہ اُنہوں نے روزے کی نیت کی ہوئی تھی اور دن کا کچھ حصّہ وہ گزارچکے تھے۔ اور اُن کے لئے روزہ کھولنا جائز تھا کیونکہ وہ سفر میں تھے مقیم نہیں تھے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سفر کے دوران روزے کی حالت میں سینگی لگوانا جائز تھا اگرچہ سینگی لگوانے سے روزہ ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جس شخص کے لئے پانی پینا جائز ہے اگر چہ پانی سے روزہ ختم ہو جاتا ہے تو اُس شخص کے لئے سینگی لگوانا بھی جائز ہے اگرچہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ عراقی علماء کی اس مسئلہ میں یہ دلیل کہ روزہ پیٹ میں داخل ہونے والی چیز سے ٹوٹتا ہے اور پیٹ سے نکلنے والی چیز سے نہیں ٹوٹتا تو یہ قول قائل کی جہالت اور غفلت کی دلیل ہے۔ اور کم علم، کم فہم لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے ـ اس شخص کا یہ قول اللہ تعالیٰ کی کتاب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت اور تمام اہل اللہ مسلمانوں کے قول کے خلاف ہے ـ جبکہ ان الفاظ کو ان کے ظاہر پر محمول کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا ہے کہ روزے کے دن میں مباشرت کرنا جماع کے حُکم میں ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں (دن کے وقت) جماع کرنے والے شخص پر ایک گردن آزاد کرنا واجب کیا ہے اگر اس کے پاس طاقت ہو ـ اور اگر گردن آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر روزے نہ رکھ سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا کفّارہ واجب کیا ہے ـ حالانکہ جماع کرنے والے کے پیٹ میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی بلکہ اس سے مٹی نکلتی ہے اگر منی کا خروج ہو اور کبھی بغیر منی نکالے بھی عورت کی شرم گاہ میں جماع کر سکتا ہے تو اس وقت اس کے پیٹ سے بھی منی نہیں نکلتی حالانکہ دونوں شرم گاہوں کا بغیر مٹی ٹپکائے مل جانے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور کفّارہ واجب ہو جاتا ہے۔ جبکہ اس حالت میں جماع کرنے والے کے پیٹ میں نہ کوئی چیز داخل ہوتی ہے اور نہ کچھ نکلتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ قصداً قے کرنے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اہل علم اور مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ عمداً قے کرنے سے روزے دار کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اگر روزے دار کا روزہ صرف پیٹ میں داخل ہونے والی چیز ہی سے ٹوٹنا ہو تو پھر جماع اور قے سے روزہ نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ کچھ جاہل لوگوں نے اس مسئلے میں ایک اور عجوبہ بیان کیا ہے۔ ان کے خیال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، یہ فرمان اس لئے جاری کیا تھا کہ وہ دونوں غیبت کر رہے تھے۔ جب اس شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا غیبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ تو کہتا ہے کہ غیبت سے روزہ نہیں ٹوٹتا تو اس شخص سے کہا جائے گا کہ اگر تمہارے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ”سینگی لگانے والے اور سینگی لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے“ کی وجہ یہ ہے کہ وہ دونوں غیبت کر رہے تھے ـ اور غیبت سے تمہارے نزدیک روزہ نہیں ٹوٹتا تو کیا کوئی ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ یہ بات کرسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو بتایا ہو کہ غیبت کرنے والے دونوں افراد کا روز ٹوٹ گیا ہے اور یہ شخص کہے کہ وہ دونوں روزے دار ہیں ان کا روزہ نہیں ٹوٹا۔ اس طرح اُس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے رسول کی اطاعت و اتباع واجب کی ہے اور آپ کی اتباع کرنے پر ہدایت دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ کے مخالفین کو وعید سنائی ہے اور آپ کے فیصلے پر دلی تنگی محسوس کرنے والے کے ایمان کی نفی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے «فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ» [ سورة النساء: 65 ] ”آپ کے رب کی قسم، وہ مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔“ اور ﷲ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول کے فیصلہ شدہ امور میں کسی شخص کو اختیار نہیں دیا ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے «وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ» [ سورة الأحزاب: 32 ] ”اور کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمنہ عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو اُن کے لئے اپنے معاملے میں ان کا کوئی اختیار رہے۔“ اور اس حدیث سے استدلال کرنے والے شخص نے اپنے پاس موجود کسی شبیہ اور تاویل کے بغیر صریحاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے۔ اس حدیث میں اس کی اس تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگانے اور سینگی لگوانے والے کو غیبت کر نے کی وجہ سے کہا کہ ان کا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔ پھر خود اس شخص کا گمان ہے کہ غیبت سے روزہ نہیں ٹوٹتا اس طرح اس شخص نے بغیر کسی شبہ اور تاویل کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح مخالفت کی ہے ـ جناب معتمر بن سلیمان کی سند سے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے دارکے لئے (اپنی بیوی کا) بوسہ لینے اور سینگی لگوانے کی رخصت دی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح