روزہ دار کا روزہ توڑنے والے افعال کے ابواب کا مجموعہ
1341.
اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے شخص کو صدقہ کرنے کا حُکم اس کی اس اطلاع کے بعد دیا تھا کہ وہ ایک گردن آزاد نہیں کرسکتا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُس نے بتادیا ہو کہ وہ دو ماہ کے مسلسل روزے بھی نہیں رکھ سکتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات میں ہے۔ لہٰذا یہ روایت مختصر بیان کی ہے
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند سائے میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس بنی بیاض کا ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی، میں برباد ہوگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ میں نے اپنی بیوں سے (روزے کی حالت میں) ہمبستری کرلی ہے۔ اور یہ کام رمضان المبارک میں کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے حُکم دیا: ”ایک گردن آزاد کرو ـ“ اُس نے کہا کہ میرے پاس گردن آزاد کرنے کی طاقت نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو ـ“ اُس نے عرض کی کہ میرے پاس (اتنا اناج بھی) نہیں ہے ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جاؤ“ تو وہ بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع (کھجوریں) تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”ابھی ابھی سوال کرنے والا شخص کہاں ہے؟“ اُس نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول، میں یہ حاضر ہوں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لے لو اور اس کا صدقہ کر دو ـ“ اُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، کیا میں اپنے اور اپنے گھر والوں سے زیادہ محتاج اور فقیر پر صدقہ کروں؟ تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے آج رات ہمارے پاس رات کا کھانا بھی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اسے اپنے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرلے۔“ اس روایت میں روزوں کا ذکر نہیں ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں، اگر یہ الفاظ ثابت ہوجائیں کہ ” ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں بیس صاع اناج تھا“ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماع کرنے والے کو حُکم دیا ہے کہ ”وہ ہر مسکین کو ایک تہائی صاع کھجوریں دے دے۔“ کیونکہ بیس صاع جب ساٹھ مساکین میں تقسیم کریںگے تو ہر مسکین کو تہائی صاع ملے گا ـ لیکن میرا خیال نہیں کہ یہ الفاظ ثابت ہوں۔ کیونکہ امام زہری رحمه الله کی روایت میں ہے۔ ”ایک ٹوکرا لایا گیا جس میں پندرہ یا بیس صاع کھجور یں تھیں۔“ یہ امام زہری سے منصور بن معتمر کی خبر ہے۔ جبکہ ہقل بن زیاد نے امام اوزاعی کے واسطے سے امام زہری سے بیان کیا ہے کہ پندرہ صاع میں یہ دونوں روایات بعد میں بیان کردی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی حجازی یا عراقی عالم دین نے یہ فتویٰ دیا ہو کہ رمضان میں جماع کے کفّارے میں ہر مسکین کو تہائی صاع کھلائے ـ حجاز کے علماء کہتے ہیں کہ وہ ہر مسکین کو ایک مد کھانا کھلا دے، وہ کھجوریں ہوں یا دیگر اناج ـ جبکہ عراقی علماء کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو ایک صاع کھجوریں کھلائے۔ جبکہ تہائی صاع کے متعلق میری معلومات کے مطابق کسی نے نہیں کہا۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ اس روایت میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھنے کا حُکم اس لئے چھوڑ دیا گیا ہو کیونکہ اس روایت میں یہ سوال رمضان المبارک کے دوران مہینہ مکمّل ہونے سے پہلے کیا گیا ہے ـ جبکہ اس گناہ کی وجہ سے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے کی ابتدا رمضان المبارک کے مکمّل ہونے اور شوال کا ایک دن گزرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حُکم دیا کیونکہ اگر جماع کرنے والا مساکین کو کھانا کھلانے کی قدرت رکھتا ہو تو رمضان المبارک میں یہ کفّارہ ادا کرنا ممکن ہے۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے وہ حُکم دیا ہے جس پر عمل کرنا فوری ممکن تھا اور اس کا حُکم نہیں دیا جس پر عمل کرنا کئی دن اور راتوں کے بعد ہی ممکن تھا۔ واللہ اعلم۔ اور مجھے یاد نہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی کسی روایت میں یہ مذکور ہو کہ جماع کرنے والے کا سوال ماہ رمضان کے مکمّل ہونے سے پہلے تھا۔ لہٰذا اگر یہ سوال رمضان المبارک کے بعد ہو تو پھر اسے دو ماہ کے روزے رکھنے کا حُکم بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت ہی کفّارے کے طور پر روزے رکھنا جائز وممکن ہے۔