صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ فَضَائِلِ الْمَسَاجِدِ وَبِنَائِهَا وَتَعْظِيمِهَا
مساجد کے فضائل، ان کی تعمیر اور ان کی تعظیم و تکریم کے متعلق ابواب کا مجموعہ
820. (587) بَابُ ذِكْرِ بَدْءِ تَحْصِيبِ الْمَسْجِدِ كَانَ
مسجد میں کنکریاں بچھانے کی ابتداء کا بیان،
حدیث نمبر: Q1298
Save to word اعراب
والدليل على ان المساجد إنما تحصب حتى لا يقذر الطين والبلل الثياب إذا مطروا، إن ثبت الخبر. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمَسَاجِدَ إِنَّمَا تُحَصَّبُ حَتَّى لَا يُقَذِّرَ الطِّينُ وَالْبَلَلُ الثِّيَابَ إِذَا مُطِرُوا، إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ.
اس بات کی دلیل کا بیان کہ مسجد میں کنکریاں اس لئے بچھائی جائیں گی تاکہ بارش کی وجہ سے کیچڑ اور تری (پانی) سے کپڑے خراب نہ ہوں۔ اگر اس سلسلے میں مروی حدیث صحیح ہو

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1298
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثني عبد الصمد ، نا عمر بن سليمان ، كان ينزل في بني قشير، حدثني ابو الوليد ، قال: قلت لابن عمر: ما بدء هذا الحصا في المسجد؟ قال: مطرنا من الليل، فجئنا إلى المسجد للصلاة، قال: فجعل الرجل يحمل في ثوبه الحصا، فيلقيه، فيصلي عليه، فلما اصبحنا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذا؟" فاخبروه، فقال:" نعم البساط هذا" قال: فاتخذه الناس قال: قلت: ما كان بدء هذا الزعفران؟ قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة الصبح، فإذا هو بنخاعة في قبلة المسجد، فحكها، وقال:" ما اقبح هذا" قال: فجاء الرجل الذي تنخع فحكها، ثم طلى عليها الزعفران، قال:" إن هذا احسن من ذلك" قال: قلت: ما بال احدنا إذا قضى حاجته نظر إليها إذا قام عنها؟ فقال:" إن الملك يقول له: انظر إلى ما نحلت به إلى ما صار" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ ، نَا عُمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، كَانَ يَنْزِلُ فِي بَنِي قُشَيْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ ، قَالَ: قُلْتُ لابْنِ عُمَرَ: مَا بَدْءُ هَذَا الْحَصَا فِي الْمَسْجِدِ؟ قَالَ: مُطِرْنَا مِنَ اللَّيْلِ، فَجِئْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ لِلصَّلاةِ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَحْمِلُ فِي ثَوْبِهِ الْحَصَا، فَيُلْقِيَهُ، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا؟" فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ:" نِعْمَ الْبِسَاطُ هَذَا" قَالَ: فَاتَّخَذَهُ النَّاسُ قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ بَدْءُ هَذَا الزَّعْفَرَانِ؟ قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلاةِ الصُّبْحِ، فَإِذَا هُوَ بِنُخَاعَةٍ فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَحَكَّهَا، وَقَالَ:" مَا أَقْبَحَ هَذَا" قَالَ: فَجَاءَ الرَّجُلُ الَّذِي تَنَخَّعَ فَحَكَّهَا، ثُمَّ طَلَى عَلَيْهَا الزَّعْفَرَانَ، قَالَ:" إِنَّ هَذَا أَحْسَنُ مِنْ ذَلِكَ" قَالَ: قُلْتُ: مَا بَالُ أَحَدِنَا إِذَا قَضَى حَاجَتَهُ نَظَرَ إِلَيْهَا إِذَا قَامَ عَنْهَا؟ فَقَالَ:" إِنَّ الْمَلَكَ يَقُولُ لَهُ: انْظُرْ إِلَى مَا نَحَلْتَ بِهِ إِلَى مَا صَارَ"
جناب ابو الولید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ مسجد میں یہ کنکریاں بچھانے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ایک رات ہم پر بارش ہوئی، تو ہم نماز پڑھنے کے لئے مسجد آئے، تو آدمی اپنے کپڑے میں کنکریاں اُٹھا کر لے آتا اُسے بچھا کر اس پر نماز پڑھ لیتا۔ پھر جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ تو صحابہ کرام نے صورت حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بہت اچھا بچھونا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے کنکریاں بچھانا شروع کر دیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا، یہ زعفران لگانا کب شروع ہوا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں ناک کی ریزش دیکھی - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کُھرچ دیا اور فرمایا: یہ کتنی قبیح اور گندی حرکت ہے۔ چنانچہ جس شخص نے وہ ریزش پھینکی تھی وہ آیا اور اُس نے اُسے صاف کر دیا اور پھر اُس پر زغفران کا لیپ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اس سے بہتر اور احسن حرکت ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، کیا وجہ ہے جب ہم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب، پاخانے) سے فارغ ہوتا ہے تو اُٹھتے وقت اُس کی طرف دیکھتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک ایک فرشتہ کہتا ہے کہ جو چیز تم نے حاصل کی تھی اُسکے انجام کو دیکھ۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.