والدليل على ان المساجد إنما تحصب حتى لا يقذر الطين والبلل الثياب إذا مطروا، إن ثبت الخبر. وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْمَسَاجِدَ إِنَّمَا تُحَصَّبُ حَتَّى لَا يُقَذِّرَ الطِّينُ وَالْبَلَلُ الثِّيَابَ إِذَا مُطِرُوا، إِنْ ثَبَتَ الْخَبَرُ.
اس بات کی دلیل کا بیان کہ مسجد میں کنکریاں اس لئے بچھائی جائیں گی تاکہ بارش کی وجہ سے کیچڑ اور تری (پانی) سے کپڑے خراب نہ ہوں۔ اگر اس سلسلے میں مروی حدیث صحیح ہو
جناب ابو الولید بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ مسجد میں یہ کنکریاں بچھانے کی ابتدا کیسے ہوئی؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ایک رات ہم پر بارش ہوئی، تو ہم نماز پڑھنے کے لئے مسجد آئے، تو آدمی اپنے کپڑے میں کنکریاں اُٹھا کر لے آتا اُسے بچھا کر اس پر نماز پڑھ لیتا۔ پھر جب ہم نے صبح کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ ”یہ کیا ہے؟“ تو صحابہ کرام نے صورت حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بہت اچھا بچھونا ہے۔“ چنانچہ لوگوں نے کنکریاں بچھانا شروع کر دیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا، یہ زعفران لگانا کب شروع ہوا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں ناک کی ریزش دیکھی - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کُھرچ دیا اور فرمایا: ”یہ کتنی قبیح اور گندی حرکت ہے۔“ چنانچہ جس شخص نے وہ ریزش پھینکی تھی وہ آیا اور اُس نے اُسے صاف کر دیا اور پھر اُس پر زغفران کا لیپ کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس سے بہتر اور احسن حرکت ہے۔“ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، کیا وجہ ہے جب ہم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت (پیشاب، پاخانے) سے فارغ ہوتا ہے تو اُٹھتے وقت اُس کی طرف دیکھتا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ”جو چیز تم نے حاصل کی تھی اُسکے انجام کو دیکھ۔“