صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَحْدَاثِ الْمُوجِبَةِ لِلْوُضُوءِ
وضو کو واجب کرنے والے احداث کے ابواب کا مجموعہ
22. ‏(‏22‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُتَقَصِّي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا،
گزشتہ مختصر روایت کی مفسر روایت کا بیان
حدیث نمبر: Q28
Save to word اعراب
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اعلم ان لا وضوء إلا من صوت او ريح عند مسالة سئل عنها في الرجل يخيل إليه انه قد خرجت منه ريح فيشك في خروج الريح، وكانت هذه المقالة عنه صلى الله عليه وسلم: «لا وضوء إلا من صوت او ريح»  جوابا عما عنه سئل فقط لا ابتداء كلام مسقطا بهذه المسالة إيجاب الوضوء من غير الريح التي لها صوت او رائحة، إذ لو كان هذا القول منه صلى الله عليه وسلم ابتداء من غير ان تقدمته مسالة كانت هذه المقالة تنفي إيجاب الوضوء من البول والنوم والمذي، إذ قد يكون البول لا صوت له ولا ريح، وكذلك النوم والمذي لا صوت لهما ولا ريح، وكذلك الوديوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَعْلَمَ أَنْ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ عِنْدَ مَسْأَلَةٍ سُئِلَ عَنْهَا فِي الرَّجُلِ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ خَرَجَتْ مِنْهُ رِيحٌ فَيَشُكُّ فِي خُرُوجِ الرِّيحِ، وَكَانَتْ هَذِهِ الْمَقَالَةُ عَنْهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ»  جَوَابًا عَمَّا عَنْهُ سُئِلَ فَقَطْ لَا ابْتِدَاءَ كَلَامٍ مُسْقَطًا بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ إِيجَابَ الْوُضُوءِ مِنْ غَيْرِ الرِّيحِ الَّتِي لَهَا صَوْتٌ أَوْ رَائِحَةٌ، إِذْ لَوْ كَانَ هَذَا الْقَوْلُ مِنْهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتِدَاءً مِنْ غَيْرِ أَنْ تَقَدَّمَتْهُ مَسْأَلَةٌ كَانَتْ هَذِهِ الْمَقَالَةُ تَنْفِي إِيجَابَ الْوُضُوءِ مِنَ الْبَوْلِ وَالنَّوْمِ وَالْمَذْيِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ الْبَوْلُ لَا صَوْتٌ لَهُ وَلَا رِيحٌ، وَكَذَلِكَ النَّوْمُ وَالْمَذْيُ لَا صَوْتَ لَهُمَا وَلَا رِيحَ، وَكَذَلِكَ الْوَدْيُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وضو صرف آواز یا بُو محسوس ہونے پر واجب ہوتا ہے اس سوال کے جواب میں تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ اس کے پیٹ سے کوئی چیز نکل گئی ہے تو وہ ہوا خارج ہونے کے متعلق شک میں پڑ جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان فقط اس سوال کا جواب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسا مستقل کلام نہ تھا جو بغیر آواز یا بُو کے وضو کے واجب ہونے کو ساقط کر دیتی ہے۔ کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بغیر سوال کے مستقل ہوتا تو اس سے پیشاب، نیند اور مذی سے وضو کے وجوب کی نفی ہو جاتی ہے، کیونکہ کبھی پیشاب کی آواز اور بُو نہیں ہوتی، اسی طرح نیند، مذی اور ودی کی نہ آواز ہوتی ہے نہ بُو۔
حدیث نمبر: 28
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے پیٹ میں کوئی چیز محسوس کرے اور شک میں مُبتلا ہوجائے کہ آیا اس کے پیٹ سے کوئی چیز نکلی ہے یا نہیں، تو وہ (مسجد سے) ہر گز نہ نکلے حتیٰ کہ آواز سن لے یا بُو محسوس کرے۔

تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحيض، باب الدليل على أن من تيقن الطهارة ثم شك فى الحدث: 362، سنن ابي داود رقم: 177، مسند احمد رقم: 414/2، سنن الدارمي رقم: 721، الترمذى، رقم: 75»
حدیث نمبر: 29
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثني عياض ، انه سال ابا سعيد الخدري ، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا سلم بن جنادة القرشي ، حدثنا وكيع ، حدثنا علي بن المبارك ، عن يحيى بن ابي كثير، عن عياض بن هلال ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الشيطان ياتي احدكم في صلاته، فيقول: إنك قد احدثت، فليقل: كذبت إلا ما وجد ريحه بانفه، او سمع صوته باذنه" . هذا لفظ وكيع. قال ابو بكر: قوله: فليقل كذبت: اراد: فليقل كذبت بضميره لا ينطق بلسانه، إذ المصلي غير جائز له ان يقول كذبت نطقا بلسانهحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ هِلالٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلاتِهِ، فَيَقُولُ: إِنَّكَ قَدْ أَحْدَثْتَ، فَلْيَقُلْ: كَذَبْتَ إِلا مَا وَجَدَ رِيحَهُ بِأَنْفِهِ، أَوْ سَمِعَ صَوْتَهُ بِأُذُنِهِ" . هَذَا لَفْظُ وَكِيعٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ: فَلْيَقُلْ كَذَبْتَ: أَرَادَ: فَلْيَقُلْ كَذَبْتَ بِضَمِيرِهِ لا يَنْطِقُ بِلِسَانِهِ، إِذِ الْمُصَلِّي غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ أَنْ يَقُولَ كَذَبْتَ نُطْقًا بِلِسَانِهِ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس اس کی نماز کے دوران آتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے وضو توڑ لیا ہے، تو اسےکہنا چاہیے کہ تُو نے جھوٹ کہا ہے سوائے اس کے کہ اپنے کان سے آواز سن لے یا اپنی ناک سے بُومحسوس کرلے۔ امام ابوبکر رحمہ اللّٰہ کہتےہیں کہ «‏‏‏‏فَلْیَقُلْ کَذَبْتَ» ‏‏‏‏ اسےکہنا چاہیے کہ تو نے جھوٹ بولا ہے۔ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ نمازی اپنے دل میں کہے (تا کہ اس کا وسوسہ دور ہو جائے) زبان سے نہ کہے کیونکہ نمازی کے لیے زبان سے «‏‏‏‏کَذَبْتَ» ‏‏‏‏ کہنا جائز نہیں ہے (یعنی اس کے لیے کلام کرنا منع ہے۔)

تخریج الحدیث: «اسناده، الضعيفه: 3018، سنن ابي داود، كتاب الصلاة، باب من قال يتم على أكبر ظنه، رقم الحديث: 1029، مسند احمد: 12/3، 37، 54، 10660، ابن ماجه: 1204، الترمذي: الصلوة، باب فيمن يشك فى الزيادة والنقصان رقم: 396»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.