اس بات کی دلیل کا بیان کہ لمس (چھونا) کبھی ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اس شخص کے قول کے برعکس جو کہتا ہے کہ لمس صرف شرم گاہ کے شرم گاہ میں جماع کرنے ہی کو کہتے ہیں
حدثنا الربيع بن سليمان المرادي ، حدثنا شعيب يعني ابن الليث ، عن الليث ، عن جعفر بن ربيعة وهو ابن شرحبيل ابن حسنة ، عن عبد الرحمن بن هرمز ، قال: قال ابو هريرة ياثره، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل ابن آدم اصاب من الزنا لا محالة، فالعين زناؤها النظر، واليد زناؤها اللمس، والنفس تهوى او تحدث، ويصدقه او يكذبه الفرج" . قال ابو بكر: قد اعلم النبي صلى الله عليه وسلم ان اللمس قد يكون باليد، قال الله عز وجل: ولو نزلنا عليك كتابا في قرطاس فلمسوه بايديهم سورة الانعام آية 7، قد علم ربنا عز وجل ان اللمس قد يكون باليد، وكذلك النبي صلى الله عليه وسلم لما نهى عن بيع اللماس، دلهم نهيه عن بيع اللمس ان اللمس باليد، وهو ان يلمس المشتري الثوب من غير ان يقلبه وينشره، ويقول عند عقد الشراء: إذا لمست الثوب بيدي فلا خيار لي بعد إذا نظرت إلى طول الثوب وعرضه او ظهرت منه على عيب، والنبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك حين اقر عنده بالزنا: لعلك قبلت او لمست، فدلت هذه اللفظة على انه إنما اراد بقوله: او لمست غير الجماع الموجب للحد، وكذلك خبر عائشة، قال ابو بكر: ولم يختلف علماؤنا من الحجازيين والمصريين والشافعي واهل الاثر ان القبلة واللمس باليد، إذا لم يكن بين اليد وبين بدن المراة إذا لمسها حجاب ولا سترة من ثوب ولا غيره، ان ذلك يوجب الوضوء، غير ان مالك بن انس، كان يقول: إذا كانت القبلة واللمس باليد ليس بقبلة شهوة، فإن ذلك لا يوجب الوضوء، قال ابو بكر: هذه اللفظة: ويصدقه او يكذبه الفرج: من الجنس الذي اعلمت في كتاب الإيمان ان التصديق قد يكون ببعض الجوارح، لا كما ادعى من موه على بعض الناس ان التصديق لا يكون في لغة العرب إلا بالقلب، قد بينت هذه المسالة بتمامها في كتاب الإيمانحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ ، عَنِ اللَّيْثِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَهُوَ ابْنُ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَأْثُرُهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ أَصَابَ مِنَ الزِّنَا لا مَحَالَةَ، فَالْعَيْنُ زِنَاؤُهَا النَّظَرُ، وَالْيَدُ زِنَاؤُهَا اللَّمْسُ، وَالنَّفْسُ تَهْوَى أَوْ تُحَدِّثُ، وَيُصَدِّقُهُ أَوْ يُكَذِّبُهُ الْفَرْجُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَعْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّمْسَ قَدْ يَكُونُ بِالْيَدِ، قَالَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ سورة الأنعام آية 7، قَدْ عَلَّمَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ اللَّمْسَ قَدْ يَكُونُ بِالْيَدِ، وَكَذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَهَى عَنْ بَيْعِ اللِّمَاسِ، دَلَّهُمْ نَهْيُهُ عَنْ بَيْعِ اللَّمْسِ أَنَّ اللَّمْسَ بِالْيَدِ، وَهُوَ أَنْ يَلْمِسَ الْمُشْتَرِي الثَّوْبَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُقَلِّبَهُ وَيَنْشُرَهُ، وَيَقُولُ عِنْدَ عَقْدِ الشِّرَاءِ: إِذَا لَمَسْتُ الثَّوْبَ بِيَدِي فَلا خِيَارَ لِي بَعْدُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَى طُولِ الثَّوْبِ وَعَرْضِهِ أَوْ ظَهَرْتُ مِنْهُ عَلَى عَيْبٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ حِينَ أَقَرَّ عِنْدَهُ بِالزِّنَا: لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ أَوْ لَمَسْتَ، فَدَلَّتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: أَوْ لَمَسْتَ غَيْرَ الْجِمَاعِ الْمُوجِبِ لِلْحَدِّ، وَكَذَلِكَ خَبَرُ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَمْ يَخْتَلِفْ عُلَمَاؤُنَا مِنَ الْحِجَازِيِّينَ وَالْمِصْرِيِّينَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَهْلُ الأَثَرِ أَنَّ الْقُبْلَةَ وَاللَّمْسَ بِالْيَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْيَدِ وَبَيْنَ بَدَنِ الْمَرْأَةِ إِذَا لَمِسَهَا حِجَابٌ وَلا سُتْرَةٌ مِنْ ثَوْبٍ وَلا غَيْرِهِ، أَنَّ ذَلِكَ يُوجِبُ الْوُضُوءَ، غَيْرَ أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، كَانَ يَقُولُ: إِذَا كَانَتِ الْقُبْلَةُ وَاللَّمْسُ بِالْيَدِ لَيْسَ بِقُبْلَةِ شَهْوَةٍ، فَإِنَّ ذَلِكَ لا يُوجِبُ الْوُضُوءَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ: وَيُصَدِّقُهُ أَوْ يُكَذِّبُهُ الْفَرَجُ: مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ الإِيمَانِ أَنَّ التَّصْدِيقَ قَدْ يَكُونُ بِبَعْضِ الْجَوَارِحِ، لا كَمَا ادَّعَى مَنْ مَوَّهَ عَلَى بَعْضِ النَّاسِ أَنَّ التَّصْدِيقَ لا يَكُونُ فِي لُغَةِ الْعَرَبِ إِلا بِالْقَلْبِ، قَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ بِتَمَامِهَا فِي كِتَابِ الإِيمَانِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ہر ابن آدم زِنا سے کچھ نہ کچھ پاتا ہے۔ آنکھ کا زِنا دیکھنا ہے، ہاتھ کا زِنا لمس (چُھونا) ہے، نفس چاہتا ہے یا خیال کرتا ہے کہ اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ اما م ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (اس حدیث) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ ”لمس کبھی ہاتھ سے بھی ہوتا ہے۔“ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ» [ سورة الأنعام ]”اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کرتے پھر اس کو یہ لوگ ا پنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے“(اس آیت مبارکہ میں) ہمارے پروردگار عزوجل نے بھی بیان فرما دیا کہ لمس ہاتھ سے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیع اللماس سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لمس ہاتھ سے ہوتا ہے۔ بیع لمس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار کپڑے کو پلٹے اور کھولے بغیر ہاتھ سے چھوئے اور خریدتے وقت کہے کہ جب میں کپڑے کو چھو لوں گا تو پھر کپڑے کے طول و عرض کو دیکھنے کے بعد یا کوئی عیب معلوم ہونے پر مجھے کوئی اختیار نہ ہو گا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا، جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زنا کاری کا اقرار کیا تھا۔ ”شاید کہ تم نے بوسہ لیا ہو یا چُھوا ہو۔“ یہ لفظ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فرمان سے مقصد یہ تھا کہ ”یا تُو نے حد کو واجب کرنے والے جماع کے علاوہ چھوا ہو۔“ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے حجازی مصری، شافعی اور محدثین کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ بوسہ لیتے ہوئے یا ہاتھ سے چھوتے وقت جب ہاتھ اور عورت کے جسم کے درمیان کوئی پردہ یا کپڑے کی آڑ نہ ہو تو وضو واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جب بوسہ اور ہاتھ سے چھونا بغیر شہوت کے ہو تواس سے وضو واجب نہیں ہوتا۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے) یہ الفاظ ”شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے“ اسی قبیل سے ہیں جسے میں نے کتاب الایمان میں بیان کیا ہے کہ تصدیق (دل کے علاوہ) کبھی دیگر اعضاء سے بھی ہوتی ہے۔ اس شخص کے دعوے کے برعکس جس نے کچھ لوگوں کو فریب دیا ہے کہ لغت عربی میں تصدیق صرف دل سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الایمان میں مکمل بیان کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الاستئذان، باب زِنا الجوارح دون الفرج: 5773، صحيح مسلم، كتاب القدر باب القدر على ابن آدم حظه من الزنا وغيره رقم: 2657، سنن ابي داود: 2153، مسند احمد: 349/2، رقم: 2858، وابن حبان، رقم: 2422»