من كتاب الاحدود حدود کے مسائل 12. باب الاِعْتِرَافِ بِالزِّنَا: زنا کے اعتراف کا بیان
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی قبیلہ اسلم کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیان کیا کہ ان سے زنا سرزد ہو گیا ہے اور انہوں نے چار بار اعتراف کیا کہ انہوں نے زنا کیا ہے، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو رجم کر دینے کا حکم صادر فرمایا کیونکہ وہ شادی شدہ تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2361]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5270]، [مسلم 1691]، [ابن حبان 3094، 4440] وضاحت:
(تشریح حدیث 2351) برضا و رغبت زنا کرنے والے کی سزا اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے، شادی شدہ ہے تو رجم یعنی پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے تاکہ اس فعلِ قبیح کی کوئی شخص جرأت نہ کر سکے۔ اور حد جاری کرنے کے لئے چار گواہوں کی گواہی ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص اعتراف کر لے تو اس پر زنا کی حد نافذ کی جائے گی۔ قرآن پاک میں ہے: « ﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ .....﴾ [النور: 2] » یعنی ”زانیہ عورت اور مرد کو سو سو کوڑے مارو .....“۔ یہ حکم غیر شادی شدہ کے لئے ہے اور شادی شدہ زانی و زانیہ کی سزا قرآن پاک میں موجود نہیں، اس کی قرأت منسوخ ہو چکی ہے، جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔ اس متفق علیہ حدیث کی تفصیل آگے آ رہی ہے، بعض علماء نے کہا چار بار اعتراف کرانے کی ضرورت نہیں، ایک بار بھی اگر اعتراف کر لیا تو حد لگانے کے لئے کافی ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو لایا گیا جو پستہ قد ازار باندھے ہوئے تھے اور ان پر چادر نہیں تھی، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں طرف رکھے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات چیت کی، میں دور تھا اور بیچ میں لوگ بیٹھے تھے، مجھے پتہ نہیں کیا بات ہوئی؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں لے جاؤ اور رجم کر دو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو واپس لاؤ“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو کی جو میں نے دیکھی لیکن ہمارے درمیان لوگ بیٹھے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو لے جاؤ اور رجم کردو“، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، میں سن رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”ہم جب اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں تو کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور بکری کی سی آواز میں ممیاتا ہے (یعنی جس طرح بکری جفتی کے وقت آواز نکالتی ہے) اور ان کے لئے تھوڑا سا دودھ ٹپکا دیتا ہے (دودھ سے مراد منی ہے یعنی زنا کرتا ہے) اللہ کی قسم ایسے کسی آدمی پر مجھے قدرت حاصل ہوئی تو اس پر میں اس کو سزا دوں گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2362]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1692]، [أبويعلی 7446]، [ابن حبان 4436] وضاحت:
(تشریح حدیث 2352) اس حدیث میں زنا کی سزا شادی شدہ کے لئے رجم کی ہے، نیز اس میں بھی دو بار اعتراف کا اشارہ ملتا ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ سے بار بار بات کی اور ان سے اعراض کیا، اس میں مقصد یہ تھا کہ یہ امر متحقق ہو جائے یا شاید وہ اپنے قول سے پھر جائیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ، سیدنا زید بن خالد اور ایک نوجوان رضی اللہ عنہم نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں، اس پر اس کے مقابل نے کہا جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا: اس نے سچ کہا، آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیجئے لیکن اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ بات کرنے کی اجازت دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو کیا کہتے ہو؟“ چنانچہ وہ گویا ہوا کہ میرا بیٹا اس شخص کے گھر میں نوکر تھا اور اس کی بیوی سے اس نے زنا کیا، میں نے اس کے بدلے میں اس کو سو بکریاں اور ایک خادم دے دیا اور میں نے اہلِ علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد (سزا) واجب ہے، اور اس کی بیوی کا رجم واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے اسے جلا وطن کیا جائے گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انیس! صبح کو اس کی بیوی کے پاس جانا اور اس سے پوچھنا، اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اس کو رجم کر دینا۔“ اس عورت نے اعتراف کر لیا اور انیس نے اسے رجم کردیا۔
تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2363]»
یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2314، 6827]، [مسلم 1697، 1698]، [أبوداؤد 4445]، [ترمذي 1433]، [نسائي 5425]، [ابن ماجه 2549]، [ابن حبان 4437]، [الحميدي 830] وضاحت:
(تشریح حدیث 2353) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے، اور غیر شادی شدہ کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، علمائے احناف جلاوطنی کے قائل نہیں، مگر یہ صریح اور صحیح حدیث ان کے خلاف ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زنا کے مقابلے میں راضی نامہ کرنا بھی غلط ہے کیونکہ عزت و مصلحت کا تحفظ روپے سے نہیں حدود سے ہے۔ اس حدیث سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ اگر مجرم اپنے جرم کا خود اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہو جاتا ہے، اس صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں، اور اس سے زنا پر حدِ شرعی سنگساری بھی ثابت ہوئی۔ قرآن پاک میں زانی غیر محصن کی سزا صرف سو کوڑے ہے، اس حدیث میں کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور یہی صحیح ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے سوائے اہلِ کوفہ کے، وہ کہتے ہیں جلاوطنی ضروری نہیں، لیکن خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل رہا، ہاں غیر شادی شدہ زانیہ عورت کے لئے صرف کوڑوں کی سزا ہے جلاوطنی نہیں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
|