من كتاب الاحدود حدود کے مسائل 17. باب الْحَامِلِ إِذَا اعْتَرَفَتْ بِالزِّنَا: حاملہ عورت زنا کا اعتراف کر لے تو کیا کیا جائے؟
عبدالله بن بریدہ نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ قبیلہ بنوغامد کی ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھ سے زنا سرزد ہو گیا ہے اور چاہتی ہوں کہ آپ مجھے (اس گناہ سے) پاک کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واپس جاؤ“، دوسرے دن وہ پھر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کا اعتراف کیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ شاید مجھے ویسے ہی وا پس کر رہے ہیں جیسے ماعز کو آپ نے لوٹایا تھا۔ اللہ کی قسم میں حاملہ ہوں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابھی واپس جاؤ جب ولادت ہو جائے تو آنا“، چنانچہ جب ولادت ہوگئی تو وہ ایک کپڑے میں بچے کو لپیٹ کر لائی اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لیجئے ولادت بھی ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے دودھ پلاؤ، جب دودھ چھوڑے تو پھر آنا“، چنانچہ جب اس کا دودھ انہوں نے چھڑایا تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھما کر لائی اور عرض کیا: دیکھئے اے اللہ کے رسول! اب میں نے دودھ بھی چھڑا دیا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بچے کو ایک صحابی کے سپرد کر دیا اور اس عورت کے لئے گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر کے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ سینے تک کے گڑھے میں کھڑی کر دی گئی۔ سیدنا خالد بن الوليد رضی اللہ عنہ سامنے آئے اور پتھر اٹھا کر سر پر پھینکا جس سے خون کے چھینٹے سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کے چہرے پر آ پڑے تو انہوں نے اس عورت کو برے لفظوں سے نوازا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی یہ بات سنی تو فرمایا: ”ٹھہرو اے خالد! اس کو برا نہ کہو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے اتنی زبردست توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی (جو لوگوں پر ظلم کرتا ہے اور مسکینوں کو ستاتا ہے) ایسی توبہ کرے تو اس کا گناہ بھی بخش دیا جائے“ (حالانکہ دوسری حدیث میں یہ ایسا شخص جنت میں نہ جائے گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اس پر نماز پڑھی گئی اور دفن کر دی گئی۔
تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2369]»
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1695]، [أبوداؤد 4441، وغيرهما] وضاحت:
(تشریح حدیث 2360) اس حدیث سے ان پاک طینت غامدی خاتون کی فضیلت ثابت ہوئی کہ بتقاضۂ بشریت گناه سرزد ہوا، توبہ کی لیکن دل مطمئن نہ ہوا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں کہ مجھے پاک کر دیجئے، ایک بار نہیں بار بار آئیں اور آخر میں چھوٹے سے بچے کو روٹی کا ٹکڑا بھی ہاتھ میں پکڑا دیا کہ رحمت للعالمین دیکھ لیں اور ان کو رجم کرنے کا حکم فرما دیں۔ سبحان اللہ! ایک خاتون ہو کر کیا ہمت تھی، کیا قوی ایمان اور جوش و جذبہ تھا، پھر جب سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے کچھ برے الفاظ کہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور فضیلت بیان کی کہ اتنی سچی توبہ انہوں نے کی ہے کہ بڑے سے بڑا ظالم بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کر دیا جائے۔ ایک روایت ہے کہ ساری دنیا کے لوگوں میں ان کی توبہ تقسیم کر دی جائے تو ان کے لئے کافی ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زنا، چوری وغیرہ میں اگر توبہ کر لی ہے تب بھی حد جاری کی جائے گی۔ نیز اس حدیث میں ہے کہ ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور پھر وہ دفن کردی گئیں، اس سے بعض علماء نے کہا: زانی و زانیہ پر نماز پڑھی جائے گی۔ بعض نے کہا: زانی پر نماز پڑھنا مکروہ ہے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جو زنا کے نتیجے میں حاملہ ہوگئی تھی، اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے حد کا کام کیا ہے، مجھ پر حد قائم کیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو بلا کر فرمایا: ”اس کو لے جا کر اچھی طرح رکھو، جب ولادت ہو جائے تو میرے پاس لے کر آنا“، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا اور اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیئے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کو رجم کر دیا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! آپ اس پر نماز پڑھ رہے ہیں جس نے زنا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہلِ مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کر دی جائے تو وہ سب پر وسیع ہوجائے گی، کیا تم نے اس سے بہتر آدمی دیکھا جس نے اللہ کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2370]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1696]، [أبوداؤد 4440، 4441]، [ترمذي 1435]، [نسائي 1956]، [صحيح ابن حبان 4403] وضاحت:
(تشریح حدیث 2361) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوراً نافذ نہیں کی جائے گی بلکہ وضع حمل تک انتظار کرنا ہوگا، پھر اگر بچے کی رضاعت و پرورش کا کوئی ذمہ لے تو حد جاری ہوگی ورنہ دودھ چھڑانے تک انتظار کرنا ہوگا جیسا کہ اوپر والی حدیث سے ثابت ہوا، نیز اس حاملہ عورت سے حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تاکید ہے کیونکہ نادان مرد و عورتیں ایسی عورت کا طعن و تشنیع کرکے جینا دوبھر کر دیتی ہیں اور جینا مرنے سے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے وقت اس کے ستر کا خیال رکھا جائے اس لئے علمائے امّت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں ڈال کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رجم کی سزا یافتہ عورت یا مرد دونوں کی نمازِ جنازہ عوام و خواص سب کو پڑھنی چاہیے جیسا کہ اوپر مذکور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|