من كتاب الاحدود حدود کے مسائل 14. باب الْحَفْرِ لِمَنْ يُرَادُ رَجْمُهُ: رجم کرنے کا ارادہ ہو تو گڑھا کھود لیا جائے
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماعز بن مالک کو لے جاؤ اور اسے رجم کردو“، چنانچہ ہم انہیں لے کر بقیع الغرقد کے پاس گئے اور قسم اللہ کی نہ ہم نے انہیں باندھا، نہ گڑھا کھودا، صرف وہ کھڑے ہوئے اور ہم نے ان پر ہڈی، ٹھیکری اور پتھر پھینک کر مارے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2365]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1694]، [أبويعلی 1215]، [ابن حبان 4438] وضاحت:
(تشریح حدیث 2355) رجم کے وقت باندھنا کسی کے نزدیک ضروری نہیں، گڑھا کھودنے میں اختلاف ہے۔ امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مرد، عورت کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا چاہیے، قتادہ، ابوثور، ابویوسف کے نزدیک دونوں کے لئے گڑھا کھودنا چاہیے اس کی دلیل آگے آتی ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جس کا رجم شہادت سے ثابت ہو اس کے لئے گڑھا کھودیں اور جس کا اقرار سے ہو اس کے لئے نہ کھودیں، شافعیہ کے نزدیک مرد کے لئے نہ کھودیں لیکن عورت کے باب میں تین قول ہیں: ایک یہ کہ سینے تک گڑھا کھودنا مستحب ہے تاکہ اس کا ستر نہ کھلے، دوسرے نہ مستحب ہے نہ مکروہ بلکہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے۔ تیسرے یہ کہ گواہی کی صورت میں وہ مستحب ہے تاکہ اس کو بھاگنے کا موقع نہ ملے، (نووی مختصراً)۔ اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے کہ کسی کے لئے گڑھا نہیں کھودنا، نیز یہ کہ مرد کو کھڑے کھڑے رجم کرنا اور عورت کو بٹھا کر رجم کرنا چاہیے تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد (سیدنا بریده رضی اللہ عنہ) سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا جب وہ شخص آیا جس کا نام ماعز بن مالک تھا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے زنا کرنے کا اعتراف کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تین بار رد کر دیا، پھر وہ چوتھی بار آیا اور اعتراف کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اس کیلئے گڑھا کھودا گیا جو ان کے سینے تک تھا، اس میں انہیں اتار دیا گیا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں رجم کریں، چنانچہ لوگوں نے انہیں اس طرح مار ڈالا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر، [مكتبه الشامله نمبر: 2366]»
اس روایت کی سند میں بشیر بن مہاجر ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث حسن کے درجہ میں ہے، اور اسے بھی امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1695]، [أحمد 347/5]، [طحاوي فى مشكل الآثار 182/1]، [دارقطني 92/3، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 2356) اس حدیث میں ہے کہ سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ کے لئے گڑھا کھودا گیا تھا لیکن اوپر والی روایت اس سے قوی اور اصح ہے، اس لئے یہی قول راجح اور صحیح معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے لئے گڑھا کھودنا ضروری نہیں۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل بشير بن المهاجر
|