(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابي هريرة، وزيد بن خالد، وشبل، قالوا: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: انشدك الله إلا قضيت بيننا بكتاب الله، فقال خصمه وكان افقه منه: صدق، اقض بيننا بكتاب الله، واذن لي يا رسول الله ان اتكلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"قل"، فقال: إن ابني كان عسيفا على اهل هذا، فزنى بامراته، فافتديت منه بمائة شاة وخادم، وإني سالت رجالا من اهل العلم، فاخبروني ان على ابني جلد مائة وتغريب عام، وان على امراة هذا الرجم، فقال:"والذي نفسي بيده، لاقضين بينكما بكتاب الله: المائة شاة والخادم رد عليك، وعلى ابنك جلد مائة وتغريب عام، ويا انيس اغد على امراة هذا فسلها، فإن اعترفت، فارجمها"، فاعترفت، فرجمها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، قَالُوا: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ إِلَّا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: صَدَقَ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَأْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"قُلْ"، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى أَهْلِ هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، فَقَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ: الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنْ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا"، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا.
سیدنا ابوہریرہ، سیدنا زید بن خالد اور ایک نوجوان رضی اللہ عنہم نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب سے فیصلہ کریں، اس پر اس کے مقابل نے کہا جو اس سے زیادہ سمجھ دار تھا: اس نے سچ کہا، آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیجئے لیکن اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ بات کرنے کی اجازت دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو کیا کہتے ہو؟“ چنانچہ وہ گویا ہوا کہ میرا بیٹا اس شخص کے گھر میں نوکر تھا اور اس کی بیوی سے اس نے زنا کیا، میں نے اس کے بدلے میں اس کو سو بکریاں اور ایک خادم دے دیا اور میں نے اہلِ علم سے پوچھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال شہر بدر ہونے کی حد (سزا) واجب ہے، اور اس کی بیوی کا رجم واجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور خادم تمہیں واپس ملیں گے اور تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے اسے جلا وطن کیا جائے گا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انیس! صبح کو اس کی بیوی کے پاس جانا اور اس سے پوچھنا، اگر وہ (زنا کا) اقرار کر لے تو اس کو رجم کر دینا۔“ اس عورت نے اعتراف کر لیا اور انیس نے اسے رجم کردیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2353) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے، اور غیر شادی شدہ کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے، علمائے احناف جلاوطنی کے قائل نہیں، مگر یہ صریح اور صحیح حدیث ان کے خلاف ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زنا کے مقابلے میں راضی نامہ کرنا بھی غلط ہے کیونکہ عزت و مصلحت کا تحفظ روپے سے نہیں حدود سے ہے۔ اس حدیث سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ اگر مجرم اپنے جرم کا خود اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہو جاتا ہے، اس صورت میں گواہوں کی ضرورت نہیں، اور اس سے زنا پر حدِ شرعی سنگساری بھی ثابت ہوئی۔ قرآن پاک میں زانی غیر محصن کی سزا صرف سو کوڑے ہے، اس حدیث میں کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور یہی صحیح ہے۔ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے سوائے اہلِ کوفہ کے، وہ کہتے ہیں جلاوطنی ضروری نہیں، لیکن خلفائے راشدین کا بھی اسی پر عمل رہا، ہاں غیر شادی شدہ زانیہ عورت کے لئے صرف کوڑوں کی سزا ہے جلاوطنی نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2363]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2314، 6827]، [مسلم 1697، 1698]، [أبوداؤد 4445]، [ترمذي 1433]، [نسائي 5425]، [ابن ماجه 2549]، [ابن حبان 4437]، [الحميدي 830]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: الحديث متفق عليه