من كتاب الاحدود حدود کے مسائل 3. باب السَّارِقِ يُوهَبُ مِنْهُ السَّرِقَةُ بَعْدَ مَا سَرَقَ: چوری کا مال برآمد کرنے کے بعد چور کو چھوڑ دیا جائے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: (سیدنا) صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور ان کے سر کے نیچے سے ان کی چادر کھینچ لے گیا تو صفوان جاگ گئے، اس کے پیچھے دوڑے اور اس چور کو پکڑ لیا اور اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں مسجد میں سویا ہوا تھا یہ شخص آیا اور میرے سر کے نیچے سے میری چادر کھینچ لے گیا، میں نے بھاگ کر اس کو پکڑ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر اس (چور) کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر اتنی قیمتی نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اس غریب کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر معاف کرنا تھا تو میرے پاس اس کو لانے سے پہلے ہی کر دیا ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار، [مكتبه الشامله نمبر: 2345]»
اس روایت کی سند اشعث بن سوار کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن دوسری اسانید سے یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 4394]، [نسائي 4893، 4896، 4898]، [أحمد 466/6]، [طبراني 55/8، 7326، 7327]، [الحاكم 380/4، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 2335) چوری کرنا حرام ہے اور جو شخص مالِ محفوظ کی قیمتی چیز چرائے قرآنی حکم کے مطابق اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا: « ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا ....﴾ [المائده: 38] » لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ قیمتی چیز ہو اور محفوظ جگہ سے چرائی گئی ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب معاملہ قاضی یا حاکم تک پہنچ جائے اور جرم ثابت ہو جائے تو پھر اس پر حد جاری کی جائے گی، اور اگر صاحبِ مال حاکم کے پاس جانے سے پہلے چور کو معاف کر دے تو اس پر حد جاری نہیں ہوگی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”میرے پاس آنے سے پہلے معاف کیوں نہیں کر دیا تھا۔ “ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أشعث وهو: ابن سوار
|