من كتاب الاحدود حدود کے مسائل 5. باب الشَّفَاعَةِ في الْحَدِّ دُونَ السُّلْطَانِ: حاکم کے پاس حدود کے سلسلے میں سفارش کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مخزومی عورت کا معاملہ جس نے چوری کی تھی قریش کے نزدیک اہمیت اختیار کر گیا اور انہوں نے کہا: اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے؟ پھر انہوں نے کہا: اس کی جرأت سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ کون کر سکے گا؟ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے ہیں، چنانچہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم الله کی حدود میں سفارش کرنے آئے ہو؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ”اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لئے برباد ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے، اللہ کی قسم اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دیتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2348]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2648، 6788]، [مسلم 1688]، [أبوداؤد 4374]، [ترمذي 1430]، [نسائي 4914]، [ابن ماجه 2547]، [أبويعلی 4549]، [ابن حبان 4402] وضاحت:
(تشریح حدیث 2338) یہ حدیث اس پر واضح دلیل ہے کہ حدود میں کسی کی سفارش کرنا جائز نہیں، سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ گرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اور محبوب تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت الفاظ میں ان سے کہہ دیا کہ یہ کیا تم اللہ کی حدود میں سفارش کر رہے ہو، اور ان کی سفارش کو رد کر دیا، یہی نہیں بلکہ خطبہ دیا اور ببانگِ دہل فرمایا کہ پہلی امتوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب یہی تھا کہ وہ جس کو چاہتے جکڑ لیتے اور حد جاری کرتے اور جسے چاہے چھوڑ دیتے تھے۔ قربان جائیں نبیٔ رحمت و نبیٔ عدل و انصاف کے اوپر، فرمایا: ”میری سب سے چہیتی چھوٹی بیٹی فاطمہ بھی اگر چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔ “ سبحان اللہ! کیا شانِ اطاعت گذاری اور رب کے احکامات کی پابندی ہے، گرچہ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ایسا فعل سرزد ہونا محال تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال دے کر فرمایا کہ اگر وہ بھی ایسا کریں تو اللہ کے حکم کی تنفیذ میں کوئی تردد نہیں کروں گا۔ «صلى اللّٰه على محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا كثيرا.» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|