حدثنا موسى، قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى رجلا يسوق بدنة، فقال: اركبها، فقال: إنها بدنة، قال: اركبها، قال: إنها بدنة، قال: اركبها، قال: فإنها بدنة، قال: اركبها، ويلك.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلاً يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ: ارْكَبْهَا، فَقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ: ارْكَبْهَا، قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ: ارْكَبْهَا، قَالَ: فَإِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ: ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ قربانی کے اونٹ کو ہانک کر لے جا رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ۔“ اس نے کہا: یہ قربانی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مریں، اس پر سوار ہو جا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب ماجاء فى قول الرجل، ويلك: 6159 و مسلم: 1323 و الترمذي: 911 و النسائي: 2800 و ابن ماجه: 3104 - صحيح أبى داؤد: 1544»
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال: حدثنا ابو علقمة عبد الله بن محمد بن عبد الله بن ابي فروة، حدثني المسور بن رفاعة القرظي قال: سمعت ابن عباس، ورجل يساله، فقال: إني اكلت خبزا ولحما، فهل اتوضا؟ فقال: ويحك، اتتوضا من الطيبات؟.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، حَدَّثَنِي الْمِسْوَرُ بْنُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَرَجُلٌ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ: إِنِّي أَكَلْتُ خُبْزًا وَلَحْمًا، فَهَلْ أَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ: وَيْحَكَ، أَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّيِّبَاتِ؟.
حضرت مسور بن رفاعہ قرظی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا: جب ایک آدمی نے ان سے پوچھا: میں نے روٹی گوشت کھایا ہے تو کیا اس سے وضو کروں؟ آپ نے فرمایا: تجھ پر افسوس، کیا تو طیبات، یعنی پاکیزہ چیزیں کھانے سے بھی وضو کرے گا۔
حدثنا علي، قال: حدثنا سفيان قال: حدثني ابو الزبير، عن جابر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بالجعرانة، والتبر في حجر بلال، وهو يقسم، فجاءه رجل فقال: اعدل، فإنك لا تعدل، فقال: ”ويلك، فمن يعدل إذا لم اعدل؟“ قال عمر: دعني يا رسول الله، اضرب عنق هذا المنافق، فقال: ”إن هذا مع اصحاب له - او: في اصحاب له - يقرؤون القرآن، لا يجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية“، ثم قال سفيان: قال ابو الزبير: سمعته من جابر قلت لسفيان: رواه قرة، عن عمرو، عن جابر، قال: لا احفظه من عمرو، وإنما حدثناه ابو الزبير، عن جابر.حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ بِالْجِعْرَانَةِ، وَالتِّبْرُ فِي حِجْرِ بِلاَلٍ، وَهُوَ يَقْسِمُ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: اعْدِلْ، فَإِنَّكَ لاَ تَعْدِلُ، فَقَالَ: ”وَيْلَكَ، فَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلُ؟“ قَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللهِ، أَضْرِبُ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ: ”إِنَّ هَذَا مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ - أَوْ: فِي أَصْحَابٍ لَهُ - يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ، لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ“، ثُمَّ قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: سَمِعْتُهُ مِنْ جَابِرٍ قُلْتُ لِسُفْيَانَ: رَوَاهُ قُرَّةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَا أَحْفَظُهُ مِنْ عَمْرٍو، وَإِنَّمَا حَدَّثَنَاهُ أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے روز جعرانہ مقام پر تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سونے کی ڈلیاں تھیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک آدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: عدل کیجیے، آپ عدل نہیں کر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو برباد ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عوض کیا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ ہوگا جو قرآن پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔“ پھر سفیان نے کہا کہ ابوالزبیر نے کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، علی کہتے ہیں: میں نے سفیان سے کہا کہ قرہ جب بیان کرتے ہیں عمرو عن جابر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: مجھے عمرو کی حدیث کا علم نہیں۔ ہمیں تو ابوزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب فرض الخمس: 3138، مختصرًا، و مسلم: 1063 و النسائي فى الكبرىٰ: 8033 و ابن ماجه: 172»
حدثنا سهل بن بكار، قال: حدثنا الاسود بن شيبان، عن خالد بن سمير، عن بشير بن نهيك، عن بشير، وكان اسمه زحم بن معبد، فهاجر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”ما اسمك؟“ قال: زحم، قال: ”بل انت بشير“، قال: بينما انا امشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر بقبور المشركين فقال: ”لقد سبق هؤلاء خير كثير“ ثلاثا، فمر بقبور المسلمين فقال: ”لقد ادرك هؤلاء خيرا كثيرا“ ثلاثا، فحانت من النبي صلى الله عليه وسلم نظرة، فراى رجلا يمشي في القبور، وعليه نعلان، فقال: ”يا صاحب السبتيتين، الق سبتيتيك“، فنظر الرجل، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم خلع نعليه فرمى بهما.حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ بَشِيرٍ، وَكَانَ اسْمُهُ زَحْمَ بْنَ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”مَا اسْمُكَ؟“ قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: ”بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ“، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلاَءِ خَيْرٌ كَثِيرٌ“ ثَلاَثًا، فَمَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ: ”لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلاَءِ خَيْرًا كَثِيرًا“ ثَلاَثًا، فَحَانَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظْرَةٌ، فَرَأَى رَجُلاً يَمْشِي فِي الْقُبُورِ، وَعَلَيْهِ نَعْلاَنِ، فَقَالَ: ”يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَيْكَ“، فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَرَمَى بِهِمَا.
حضرت بشیر بن معبد سدوسی، جن کا نام زحم بن معبد تھا سے روایت ہے کہ وہ ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تمہارا نام کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: زحم۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا نام (آج کے بعد) بشیر ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”یقیناً ان لوگوں سے بہت زیادہ خیر چھوٹ گئی ہے۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ”انہوں نے یقیناً خیر کثیر پالی ہے۔“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پڑی تو ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ قبرستان میں جوتے پہنے ہوئے چل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سبتیہ جوتے پہننے والے، اپنے جوتے اتار دو۔“ چنانچہ اس آدمی نے دیکھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے نظر آئے تو اس نے جوتے اتار کر پھینک دیے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الجنائز، باب المشي بين القبور فى النعل: 3230 و النسائي: 2048 و ابن ماجه: 1568 - انظر الإرواء: 760»