السيرة النبوية وفيها الشمائل سیرت نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار रसूल अल्लाह ﷺ का चरित्र, आदतें और व्यवहार رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات “ रसूल अल्लाह ﷺ के चमत्कार ”
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی۔“ جلد باز لوگ پانی (کی تلاش) کے ارادے سے چل پڑے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹا رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری ایک طرف جھکنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آ گئی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اونگھ کی وجہ سے) جھکنے لگے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر جھکے کہ قریب تھا کہ سواری سے گر پڑیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دیا، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے اور پوچھا: ”یہ آدمی کون ہے؟“، میں نے کہا: ابوقتادہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کب سے چل رہے ہو؟“ میں نے کہا: رات سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اﷲ تیری حفاظت کرے جس طرح کہ تو نے اس کے رسول کی حفاظت کی ہے۔“ پھر فرمایا: ”اگر ہم سستا لیں (تو بہتر ہو گا)۔“ پھر ایک درخت کی طرف مڑے اور وہیں اتر پڑے اور فرمایا: ”دیکھو، آیا کوئی آدمی نظر آ رہا ہے؟“ میں نے کہا: یہ ایک سوار ہے، یہ دو سوار آ گئے ہیں، یہاں تک کہ کل سات افراد جمع ہو گئے۔ ہم نے کہا ذرا نماز فجر کا خیال رکھنا، کہیں سو ہی نہ جائیں۔ (لیکن ہم سب سو گئے اور) سورج کی گرمی نے ہم کو جگایا، ہم بیدار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر چل پڑے، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تھوڑے ہی چلے تھے کہ اتر پڑے اور پوچھا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں، میرے پاس وضو کا برتن ہے، اس میں معمولی سا پانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے آؤ۔“ میں لے آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی لیجئیے، پانی لیجئیے۔“ سب لوگوں نے وضو کر لیا اور لوٹے میں ایک گھونٹ پانی کا باقی بچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابو قتادہ! اس پانی کو محفوظ کر لو، عنقریب اس کی بنا پر عظیم (معجزہ) رونما ہو گا۔“ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، لوگوں نے فجر سے پہلے والی دو سنتیں پڑھیں اور پھر نماز فجر ادا کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ہم بھی۔ ہم آپس میں ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہم سے نماز میں کمی واقع ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا کہہ رہے ہو؟ اگر کوئی دنیوی بات ہے تو خود حل کر لو اور اگر دینی معاملہ ہے تو میری طرف لاؤ۔“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے نماز میں کمی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیند (کی وجہ سے تاخیر ہونے سے) کوئی کوتاہی نہیں ہوتی، کوتاہی تو یہ ہے کہ جیتے جاگتے (نماز کو لیٹ کر دیا جائے)، اگر اس طرح ہو جائے (جس طرح کہ آج ہوا ہے تو) اسی وقت نماز پڑھ لیا کرو، اور دوسرے دن نماز اپنے وقت میں ادا کیا کرو۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: ”قوم کے بارے میں اندازہ لگاؤ۔“ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کل کہا تھا کہ اگر کل پانی نہ ملا تو پیاس غالب آ جائے گی اور ہمارے پاس تو پانی ہے۔ فرمایا ”جب صبح ہوئی اور (بڑی جماعت کے) لوگوں نے اپنے نبی کو مفقود پایا تو کوئی کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں پانی پر ہوں گے۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے، انہوں نے کہا لوگو! یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کی طرف تم سے سبقت لے جائیں اور تمہیں پیچھے چھوڑ جائیں اور اگر لوگ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کر لیں تو وہ ہدایت پا جائیں گے۔ یہ کلمات تین دفعہ کہے، جب دن کی سخت گرمی شروع ہوئی اور لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نظر آ گئے، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں اور حلق پیاس کی وجہ سے سوکھ کر کانٹا بن گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تم پر کوئی ہلاکت نازل نہیں ہو گی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوقتادہ! وضو کا برتن لاؤ (جس میں ایک گھونٹ پانی تھا)۔“ میں لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پیالے کا ڈھکن اٹھاؤ۔“ میں نے ڈھکن کھولا اور پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں پانی بہاتے گئے اور لوگوں کو پلاتے گئے، لوگ بڑی تعداد میں اکٹھے ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! اچھے انداز میں بھرو، ہر کوئی سیراب ہو کر لوٹے گا۔“ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ تمام لوگوں نے پانی پی لیا۔ بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے پانی انڈیلا اور فرمایا: ”ابوقتادہ! پیو۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ پئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے۔“ اس لیے پہلے میں نے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا اور وضو دان میں اتنا پانی موجود تھا، جتنا کہ پہلے تھا۔ اس دن لشکر کی تعداد تین سو (۳۰۰) تھی۔
عمر بن عبداللہ بن یعلیٰ بن مرہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تین ایسی چیزیں دیکھیں ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نے نہیں دیکھیں (۱) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا، آپ کا گزر ایک لڑکی کے پاس سے ہوا، اس کے پاس اس کا بیٹا تھا، اس پر جنونی کیفیت طاری تھی، میں نے اتنی سخت دیوانگی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس لڑکی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے بیٹے کی حالت ہے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں (اب کیا کیا جائے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہتی ہو تو میں اس کے لیے دعا کر دیتا ہوں۔ ”پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی اور چل دیے۔ (۲) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک اونٹ گزرا، اس کی گردن جھکی ہوئی تھی اور وہ بلبلا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے مالک کو میرے پاس لاؤ۔“ (جب وہ آیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اونٹ کہہ رہا ہے کہ میں اپنے مالک کے پاس پیدا ہوا تھا، انہوں نے مجھے خوب استعمال کیا، اب جب میں بوڑھا ہو گیا تو اس نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے۔ (۳) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو علیحدہ علیحدہ درخت دیکھے اور مجھے فرمایا: ”جاؤ اور ان درختوں سے کہو کہ (ایک مقام پر) جمع ہو جاؤ۔“ سو وہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی اوٹ میں بیٹھ کر) قضائے حاجت کر لی اور فرمایا: ”جاؤ اور ان سے کہو کہ علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو اسی بچے سے آپ کا گزر ہوا، وہ دوسریے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اس کی ماں نے اس کے لیے چھ مینڈھے پال رکھے تھے۔ اس نے دو مینڈ ھے قربان کئے اور کہا کہ اسے دوبارہ جنون والی بیماری نہیں لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز جانتی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، سوائے کافر اور فاسق جنوں اور انسانوں کے۔“
|