الجنة والنار جنت اور جہنم जन्नत और जहन्नम جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد اور ادنیٰ مرتبت جنتی کی کیفیت “ जन्नत में जाने वाले अंतिम व्यक्ति का हाल ”
سیدنا انس رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والے آدمی کی کیفیت یہ ہو گی کہ وہ ( جہنم سے نکلنے کے لیے) چلتے چلتے منہ کے بل گرے گا، آگ اس کے چہرے کو جھلستی رہے گی۔ جب وہ جہنم سے گزر جائے گا تو اسے مخاطب ہو کر کہے گا: وہ ذات بابرکت ہے جس نے مجھے تجھ سے نجات دلائی اور مجھے (تجھ سے آزاد کر کے) جو کچھ عطا کیا وہ پہلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ اتنے میں اسے ایک درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب پہنچا دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! (پہلے یہ معاہدہ کر کہ) اگر میں تیرا یہ مطالبہ پورا کر دوں، تو تو کسی اور چیز کا سوال نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے ربّ! وہ اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرے گا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا، لیکن (آگے چل کر) اس کا ربّ اس کو معذور سمجھے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ (بندہ) صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا، وہ اس کے سائے میں آرام کرے گا اور پانی پیئے گا۔ اتنے میں اسے اس درخت کی بہ نسبت ایک اور خوبصورت درخت نظر آئے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے فلاں درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا پانی پی سکوں اور اس کے سائے میں آرام کر سکوں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ مزید کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے مزید مطالبہ نہ کرنے کا معاہدہ نہیں کیا تھا؟ اب اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو تو مزید کوئی مطالبہ تو نہیں کرے گا؟ وہ آئندہ کوئی سوال نہ کرنے کا عہد و پیمان کرے گا۔ لیکن اس کا ربّ اسے آئندہ بھی معذور سمجھے گا کیونکہ اسے علم ہے کہ وہ صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (دوسرے) درخت کے پاس پہنچا دے گا، وہ اس کے سائے میں بیٹھے گا اور وہاں کا پانی پئیے گا۔ اتنے میں اسے پہلے دونوں درختوں سے حسین تیسرا درخت دکھائی دے گا، جو جنت کے دروازے کے قریب ہو گا۔ وہ (عدم صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے) دعا کرے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں اور مزید میں تجھ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے پہلے یہ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ مزید کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں، اے میرے ربّ! بس یہی مطالبہ ہے، اس کے بعد کسی چیز کی سوال نہیں کروں گا، لیکن اس کا ربّ اسے معذور سمجھے گا، کیونکہ وہ (آئندہ) ایسی چیزیں دیکھے گا جن پر صبر نہیں کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے (اس تیسرے درخت کے) قریب کر دے گا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کون سی چیز مجھے تیری دعا قبول کرنے سے روک سکتی ہے؟ ( میں تو قادر مطلق ہوں۔ اے میرے بندے!) اگر میں تجھے دنیا اور اس کی مثل ایک اور دنیا کے برابر دے دوں تو تو راضی ہو جائے گا؟ وہ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ (یہ تجھے زیب نہیں دیتا) ” سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم لوگ مجھ سے میرے ہنسنے کے بارے میں دریافت نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: اچھا، ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ بتاؤ۔ انہوں نے کہا: (در اصل) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر اسی طرح ہنسے تھے، صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس بندے نے کہا: (اے اللہ!) تو جہانوں کا پالنہار ہونے کے باوجود مجھ سے مذاق کرتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ ہنس پڑے، اس لیے میں بھی ہنس پڑا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، میں تو جو چاہتا ہوں، وہ کرنے پر قادر ہوں۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل جنت میں سب سے ادنیٰ مقام والے آدمی کی تفصیل یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا رخ جہنم سے پھیر کر جنت کی طرف کریں گے، اسے ایک سایہ دار درخت کی شبیہ نظر آئے گی۔ وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک پہنچا دے، تاکہ میں اس کے سائے میں آرام کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسے کر دوں تو تو مزید کسی چیز کا سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دے گا۔ اتنے میں اسے سایہ دار اور پھل دار درخت نظر آئے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پھل کھا سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں تیرا یہ مطالبہ بھی پورا کر دوں تو تو مزید سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کے قسم نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے وہاں تک پہنچا دے گا۔ اسے وہاں سے سائے، پھل اور پانی والے درخت کی شبیہ دکھائی دے گی، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے اس درخت تک آگے لے جا، تاکہ اس کے سائے میں آرام کر سکوں، اس کا پھل کھا سکوں اور وہاں کا پانی پی سکوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اگر میں ایسا کر دوں تو تو مزید تو کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اسے اس درخت تک پہنچا دیں گے۔ وہاں سے اسے جنت کا دروازہ دکھائی دے گا، وہ کہے گا: اے میرے ربّ! مجھے باب جنت تک لے جا، تاکہ جنت کے شیڈ کے نیچے بیٹھ سکوں اور جنتیوں کو دیکھ سکوں۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے کے پاس پہنچا دے گا۔ وہ جنت کے لوگوں اور نعمتوں کو دیکھے گا اور کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل ہی کر دے۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ جب وہ جنت میں داخل ہو گا تو پوچھے گا: یہ جگہ میری ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو تمنا کر۔ وہ تمنا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اسے یاد کرائیں گے کہ اس قسم کی نعمتوں کی آرزوئیں کرتا جا، یہاں تک کہ اس کی تمناؤں کی انتہا ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے تیری تمنا اور اس کا دس گنامزید ملے گا۔ پھر وہ جنت میں (اپنے محل میں) داخل ہو گا، دو آہوچشم حوریں اس کے پاس آ کر کہیں گی: ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے تجھے ہمارے لیے اور ہمیں تیرے لیے زندہ کیا۔ وہ کہے گا: جو کچھ مجھے ملا، یہ کسی جنتی کو نہیں دیا گیا۔ اور اہل جہنم میں سب سے کم عذاب والا وہ شخص ہو گا جسے آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے اور ان کی حرارت کی وجہ سے اس کا دماغ ابلنا شروع ہو جائے گا۔“
|