أبواب السهو کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل 216. باب إِذَا نَامَ عَنْ صَلاَتِهِ، بِاللَّيْلِ صَلَّى بِالنَّهَارِ باب: تہجد پڑھے بغیر سو جائے تو اسے دن میں پڑھنے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد نہیں پڑھ پاتے تھے اور نیند اس میں رکاوٹ بن جاتی یا آپ پر نیند کا غلبہ ہو جاتا تو دن میں (اس کے بدلہ میں) بارہ رکعتیں پڑھتے ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعد بن ہشام ہی ابن عامر انصاری ہیں اور ہشام بن عامر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں۔ بہز بن حکیم سے روایت ہے کہ زرارہ بن اوفی بصرہ کے قاضی تھے۔ وہ بنی قشیر کی امامت کرتے تھے، انہوں نے ایک دن فجر میں آیت کریمہ «فإذا نقر في الناقور * فذلك يومئذ يوم عسير» ”جب صور پھونکا جائے گا تو وہ دن سخت دن ہو گا“ پڑھی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑے اور مر گئے۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو انہیں اٹھا کر ان کے گھر لے گئے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 71 (746)، سنن ابی داود/ الصلاة 316 (1342)، (فی سیاق طویل)، سنن النسائی/قیام اللیل 2 (1602)، (في سیاق طویل)، و64 (1790)، (تحفة الأشراف: 16105)، مسند احمد (6/54) في سیاق طویل) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جس کی رات کی نفل (نماز تہجد) قضاء ہو جائے، اور وہ انہیں طلوع فجر اور ظہر کے بیچ پڑھ لے تو غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، شاید بارہ کبھی اس لیے پڑھی ہو گی کہ وتر اس رات عشاء کے بعد ہی پڑھ چکے ہوں گے، اور وتر دو بار نہیں پڑھی جاتی، یا جس رات میں یہ اندازہ ہوتا کہ پوری گیارہ رکعتیں آج نہیں پڑھ پاؤں گا اس رات وتر رات ہی پڑھ لیتے ہوں گے یا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دن کے وقت بارہ رکعت پڑھتے تھے تو وتر کو جُفت کر لیتے ہوں گے، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|