(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، عن ابي مالك الاشجعي، قال: قلت لابي: يا ابة إنك قد " صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر , وعمر , وعثمان , وعلي بن ابي طالب ها هنا بالكوفة نحوا من خمس سنين، اكانوا يقنتون؟ قال: اي بني محدث. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم، وقال سفيان الثوري: إن قنت في الفجر فحسن وإن لم يقنت فحسن، واختار ان لا يقنت، ولم ير ابن المبارك القنوت في الفجر، قال ابو عيسى: وابو مالك الاشجعي اسمه: سعد بن طارق بن اشيم،(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي: يَا أَبَةِ إِنَّكَ قَدْ " صَلَّيْتَ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ , وَعُثْمَانَ , وَعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ هَا هُنَا بِالْكُوفَةِ نَحْوًا مِنْ خَمْسِ سِنِينَ، أَكَانُوا يَقْنُتُونَ؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ مُحْدَثٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ سفيان الثوري: إِنْ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ فَحَسَنٌ وَإِنْ لَمْ يَقْنُتْ فَحَسَنٌ، وَاخْتَارَ أَنْ لَا يَقْنُتَ، وَلَمْ يَرَ ابْنُ الْمُبَارَكِ الْقُنُوتَ فِي الْفَجْرِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ،
ابو مالک سعد بن طارق اشجعی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ (طارق بن اشیم رضی الله عنہ) سے عرض کیا: ابا جان! آپ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور علی رضی الله عنہ کے پیچھے بھی یہاں کوفہ میں تقریباً پانچ برس تک پڑھی ہے، کیا یہ لوگ (برابر) قنوت (قنوت نازلہ) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! یہ بدعت ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور سفیان ثوری کہتے ہیں کہ اگر فجر میں قنوت پڑھے تو بھی اچھا ہے اور اگر نہ پڑھے تو بھی اچھا ہے، ویسے انہوں نے پسند اسی بات کو کیا ہے کہ نہ پڑھے اور ابن مبارک فجر میں قنوت پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التطبیق 32 (1081)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 14 (1241)، (تحفة الأشراف: 4976)، مسند احمد (3/472) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: اس میں برابر پڑھنا مراد ہے نہ کہ مطلق پڑھنا بدعت مقصود ہے، کیونکہ بوقت ضرورت قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ گزرا۔