أبواب السهو کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل 201. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَفُوتُهُ الرَّكْعَتَانِ قَبْلَ الْفَجْرِ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ صَلاَةِ الْفَجْرِ باب: فجر سے پہلے کی دونوں سنتیں چھوٹ جائیں تو انہیں نماز فجر کے بعد پڑھنے کا بیان۔
قیس (قیس بن عمرو بن سہل) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ”قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ ۱؎ (پڑھنے جا رہے ہو؟)“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”تب کوئی حرج نہیں“ ۲؎۔
۱- ہم محمد بن ابراہیم کی حدیث کو اس کے مثل صرف سعد بن سعید ہی کے طریق سے جانتے ہیں، ۲- سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عطاء بن ابی رباح نے بھی یہ حدیث سعد بن سعید سے سنی ہے، ۳- یہ حدیث مرسلاً بھی روایت کی جاتی ہے، ۴- اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ۵- سعد بن سعید یحییٰ بن سعید انصاری کے بھائی ہیں، اور قیس یحییٰ بن سعید انصاری کے دادا ہیں۔ انہیں قیس بن عمرو بھی کہا جاتا ہے اور قیس بن قہد بھی، ۶- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے نہیں سنا ہے، بعض لوگوں نے یہ حدیث سعد بن سعید سے اور سعد نے محمد بن ابراہیم سے روایت کی ہے کہ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو قیس کو دیکھا“، اور یہ عبدالعزیز کی حدیث سے جسے انہوں نے سعد بن سعید سے روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 295 (1267)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 104 (1154)، (تحفة الأشراف: 11102)، مسند احمد (5/447) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ: فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1151)
|