سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
أبواب السهو
کتاب: نماز میں سہو و نسیان سے متعلق احکام و مسائل
The Book on As-Shw
184. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَعْطُسُ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں چھینکنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Sneezing During Salat
حدیث نمبر: 404
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا رفاعة بن يحيى بن عبد الله بن رفاعة بن رافع الزرقي، عن عم ابيه معاذ بن رفاعة، عن ابيه، قال: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فعطست، فقلت: الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى، فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف، فقال: " من المتكلم في الصلاة؟ " فلم يتكلم احد ثم قالها الثانية: " من المتكلم في الصلاة؟ " فلم يتكلم احد ثم قالها الثالثة: " من المتكلم في الصلاة " فقال رفاعة بن رافع ابن عفراء: انا يا رسول الله، قال: " كيف قلت؟ " قال: قلت الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " والذي نفسي بيده لقد ابتدرها بضعة وثلاثون ملكا ايهم يصعد بها ". قال: وفي الباب عن انس , وائل بن حجر , وعامر بن ربيعة، قال ابو عيسى: حديث رفاعة حديث حسن، وكان هذا الحديث عند بعض اهل العلم انه في التطوع، لان غير واحد من التابعين، قالوا: إذا عطس الرجل في الصلاة المكتوبة إنما يحمد الله في نفسه ولم يوسعوا في اكثر من ذلك.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا رِفَاعَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ عَمِّ أَبِيهِ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسْتُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ، فَقَالَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ؟ " فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّانِيَةَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ؟ " فَلَمْ يَتَكَلَّمْ أَحَدٌ ثُمَّ قَالَهَا الثَّالِثَةَ: " مَنِ الْمُتَكَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ " فَقَالَ رِفَاعَةُ بْنُ رَافِعٍ ابْنُ عَفْرَاءَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " كَيْفَ قُلْتَ؟ " قَالَ: قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ مُبَارَكًا عَلَيْهِ كَمَا يُحِبُّ رَبُّنَا وَيَرْضَى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ مَلَكًا أَيُّهُمْ يَصْعَدُ بِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ رِفَاعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ فِي التَّطَوُّعِ، لِأَنَّ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: إِذَا عَطَسَ الرَّجُلُ فِي الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ إِنَّمَا يَحْمَدُ اللَّهَ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُوَسِّعُوا فِي أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ.
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، مجھے چھینک آئی تو میں نے «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» کہا جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نماز پڑھ کر پلٹے تو آپ نے پوچھا: نماز میں کون بول رہا تھا؟ تو کسی نے جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات دوبارہ پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر آپ نے یہی بات تیسری بار پوچھی کہ نماز میں کون بول رہا تھا؟ رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ نے عرض کیا: میں تھا اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا: تم نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا: یوں کہا تھا «الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى» تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تیس سے زائد فرشتے اس پر جھپٹے کہ اسے کون لے کر آسمان پر چڑھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رفاعہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں انس، وائل بن حجر اور عامر بن ربیعہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- بعض اہل علم کے نزدیک یہ واقعہ نفل کا ہے ۱؎ اس لیے کہ تابعین میں سے کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ جب آدمی فرض نماز میں چھینکے تو الحمدللہ اپنے جی میں کہے اس سے زیادہ کی ان لوگوں نے اجازت نہیں دی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 121 (773)، سنن النسائی/الافتتاح 36 (932)، (تحفة الأشراف: 3606)، وراجع أیضا: صحیح البخاری/الأذان 126 (799)، و سنن ابی داود/ الصلاة 121 (770)، وسنن النسائی/التطبیق 22 (1063)، وما/القرآن 7 (25)، و مسند احمد (4/340) (صحیح) (سند حسن ہے، لیکن شواہد کی بنا پر حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں: «وأفاد بشر بن عمر الزهراي في روايته عن رفاعة بن يحيى أن تلك الصلاة كانت المغرب» (یہ مغرب تھی) یہ روایت ان لوگوں کی تردید کرتی ہے جنہوں نے اسے نفل پر محمول کیا ہے۔ مگر دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابی نے یہ الفاظ رکوع سے اٹھتے وقت کہے تھے اور اسی دوران انہیں چھینک بھی آئی تھی، تمام روایات صحیحہ اور اس ضمن میں علماء کے اقوال کی جمع و تطبیق یہ ہے کہ اگر نماز میں چھینک آئے تو اونچی آواز سے الحمد للہ کہنے کی بجائے جی میں کہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (747)، المشكاة (992)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.