كتاب الصيد والذبائح کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل 11. بَابُ: امْتِنَاعِ الْمَلاَئِكَةِ مِنْ دُخُولِ بَيْتٍ فِيهِ كَلْبٌ باب: جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ملائکہ (فرشتے) ۱؎ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر (مجسمہ) ہو یا کتا ہو یا جنبی (ناپاک شخص) ہو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 262 (ضعیف) ’’حدیث ولا جنب کے لفظ سے ضعیف ہے) (اس کے راوی ”نجی“ لین الحدیث ہیں، لیکن اگلی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، مگر اس میں ”جنبی“ کا لفظ نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”فرشتوں“ سے مراد رحمت کے فرشتے ہیں نہ کہ حفاظت کرنے والے فرشتے، کیونکہ حفاظت کرنے والے فرشتوں کا کسی انسان یا انسان کے رہنے والی جگہ سے دور رہنا ممکن نہیں۔ ۲؎: حدیث میں صحت و ثبوت ہونے کے اعتبار سے ”جنبی“ کا لفظ ”منکر“ یعنی ضعیف ہے اور ”کتا“ سے مراد شکار، کھیتی یا جانوروں کی حفاظت کے مقصد سے پالے جانے والے کتوں کے علاوہ کتے مراد ہیں، اور ”تصویر“ سے وہ تصویریں مراد ہیں جس کا سایہ ہوتا ہے، یعنی ہاتھ سے بنائے ہوئے مجسمے، یا دیواروں پر لٹکائی جانے والی کاغذ پر بنی ہوئی تصویریں ہیں، کرنسی نوٹوں، کتابوں اور رسائل و جرائد میں بنی ہوئی تصویروں سے بچنا اس زمانہ میں بڑا مشکل بلکہ محال ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله ولا جنب
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں کتے، یا تصاویر (مجسمے) ہوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 7 (3225)، 17(3322)، المغازي 12 (4002)، اللباس 88 (5949)، 92 (5975)، صحیح مسلم/اللباس 26 (2106)، سنن ابی داود/اللباس 48 (4153)، سنن الترمذی/الأدب 44 (2804)، سنن ابن ماجہ/اللباس 44 (3649)، (تحفة الأشراف: 3779)، مسند احمد (4/28، 29، 30) ویأتي عند المؤلف في الزینة 111 (بأرقام5349، 5350) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت غمگین اور اداس اٹھے، میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے آپ کی حالت آج کچھ بدلی بدلی عجیب و غریب لگ رہی ہے، آپ نے فرمایا: ”جبرائیل نے مجھ سے رات میں ملنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وہ ملنے نہیں آئے، اللہ کی قسم! انہوں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی“، آپ اس دن اسی طرح (غمزدہ) رہے، پھر آپ کو کتے کے ایک بچے (پلے) کا خیال آیا جو ہمارے تخت کے نیچے تھا، آپ نے حکم دیا تو اسے نکالا گیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں پانی لے کر اس سے اس جگہ پر چھینٹے مارے، پھر جب شام ہوئی تو آپ کو جبرائیل علیہ السلام ملے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”آپ نے مجھ سے گزشتہ رات ملنے کا وعدہ کیا تھا؟“ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو یا تصویر (مجسمہ) ہو، پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 26 (2105)، سنن ابی داود/اللباس 48 (4157)، (تحفة الأشراف: 18068)، مسند احمد (6/330) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|