كِتَاب الْبُيُوعِ کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل 35. باب فِي الْمُسَاقَاةِ باب: مساقاۃ یعنی درختوں میں بٹائی کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر کو زمین کے کام پر اس شرط پہ لگایا کہ کھجور یا غلہ کی جو بھی پیداوار ہو گی اس کا آدھا ہم لیں گے اور آدھا تمہیں دیں گے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 8 (2329)، صحیح مسلم/المساقاة 1 (1551)، سنن الترمذی/الأحکام 41 (1383)، سنن ابن ماجہ/الرھون 14 (2467)، (تحفة الأشراف: 8138)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/17، 22، 37)، سنن الدارمی/البیوع 71 (2656) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مساقاۃ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کو کسی ایسے شخص کے حوالہ کر دے جو اس کی پوری نگہداشت کرے پھر اس سے حاصل ہونے والے پھل میں دونوں برابر کے شریک ہوں، مساقاۃ مزارعت ہی کی ایک شکل ہے فرق یہ ہے کہ مساقاۃ کا تعلق درختوں سے ہے جب کہ مزارعت کا تعلق کھیتی سے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو خیبر کے کھجور کے درخت اور اس کی زمین اس شرط پر دی کہ وہ ان میں اپنی پونجی لگا کر کام کریں گے اور جو پیداوار ہو گی، اس کا نصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو گا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 8424) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا، اور یہ شرط لگا دی (واضح کر دیا) کہ اب زمین ان کی ہے اور جو بھی سونا چاندی نکلے وہ بھی ان کا ہے، تب خیبر والے کہنے لگے: ہم زمین کے کام کاج کو آپ لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں تو آپ ہمیں زمین اس شرط پہ دے دیجئیے کہ نصف پیداوار آپ کو دیں گے اور نصف ہم لیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرط پر انہیں زمین دے دی، پھر جب کھجور کے توڑنے کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس بھیجا، انہوں نے جا کر کھجور کا اندازہ لگایا (اسی کو اہل مدینہ «خرص» (آنکنا) کہتے ہیں) تو انہوں نے کہا: اس باغ میں اتنی کھجوریں نکلیں گی اور اس باغ میں اتنی (ان کا نصف ہمیں دے دو) وہ کہنے لگے: اے ابن رواحہ! تم نے تو ہم پر (بوجھ ڈالنے کے لیے) زیادہ تخمینہ لگا دیا ہے، تو ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اگر یہ زیادہ ہے) تو ہم اسے توڑ لیں گے اور جو میں نے کہا ہے اس کا آدھا تمہیں دے دیں گے، یہ سن کر انہوں نے کہا یہی صحیح بات ہے، اور اسی انصاف اور سچائی کی بنا پر ہی زمین و آسمان اپنی جگہ پر قائم اور ٹھہرے ہوئے ہیں، ہم راضی ہیں تمہارے آنکنے کے مطابق ہی ہم لے لیں گے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 18 (1820)، (تحفة الأشراف: 6494) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
جعفر بن برقان سے اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے اس میں لفظ «فحزر» ہے اور «وكل صفراء وبيضاء» کی تفسیر سونے چاندی سے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 6494) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
مقسم سے (مرسلاً) روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت خیبر فتح کیا، پھر آگے انہوں نے زید کی حدیث (پچھلی حدیث) کی طرح حدیث ذکر کی اس میں ہے پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کھجور کا اندازہ لگایا، (اور جب یہودیوں نے اعتراض کیا) تو آپ نے کہا: اچھا کھجوروں کے پھل میں خود توڑ لوں گا، اور جو اندازہ میں نے لگایا ہے، اس کا نصف تمہیں دے دوں گا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3410)، (تحفة الأشراف: 6494) (صحیح الإسناد)» (اگلی دونوں روایتوں سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ خود یہ مرسل روایت ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|