كتاب الذبائح کتاب: ذبیحہ کے احکام و مسائل 9. بَابُ: ذَكَاةِ النَّادِّ مِنَ الْبَهَائِمِ باب: قابو سے باہر ہو جانے والے جانور کو کیسے ذبح کیا جائے؟
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ سرکش ہو گیا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں کچھ وحشی ہوتے ہیں“، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنگلی جانوروں کی طرح تو جو ان میں سے تمہارے قابو میں نہ آ سکے، اس کے ساتھ ایسا ہی کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (3137)، (تحفة الأشراف: 3516) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی بسم اللہ کہہ کر تیر، برچھی وغیرہ سے مار دو، اگر وہ مر جائے تو حلال ہو گا یہ اضطراری ذبح ہے، اس کا حکم مثل ذبح کے ہے، جب ذبح پر قدرت نہ ہو، اب تیر کے قائم مقام بندوق اور توپ ہے، اگر بندوق بسم اللہ کہہ کر چلائے، اور جانور ذبح کرنے سے پہلے مر جائے تو وہ حلال ہے، یہی قول محققین کا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوالعشراء کے والد کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا صرف حلق اور کوڑی کے بیچ ہی میں (ذبح) کرنا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں کونچ دو تو بھی کافی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحي 16 (2825)، سنن الترمذی/الصید 13 (1481)، سنن النسائی/الضحایا 24 (4413)، (تحفة الأشراف: 15694)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/334)، سنن الدارمی/الأضاحي 12 (2015) (ضعیف)» (ابو العشراء اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 2535)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|