كتاب الحدود کتاب: حدود کے احکام و مسائل 33. بَابُ: الْحَدُّ كَفَّارَةٌ باب: حد کا نفاذ گناہ کا کفارہ ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی ایسا کام کرے جس سے حد لازم آئے، اور اسے اس کی سزا مل جائے، تو یہی اس کا کفارہ ہے، ورنہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحدود 10 (1709)، (تحفة الأشراف: 5090)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الایمان 11 (18)، مناقب الانصار43 (3892)، تفسیرسورةالممتحنة 3 (4894)، الحدود 8 (6784)، 14 (801)، الاحکام 49 (7213)، التوحید 31 (746)، سنن الترمذی/الحدود 12 (1439)، سنن النسائی/البیعة 9 (4166)، مسند احمد (5/314، 321، 333)، سنن الدارمی/السیر 17 (2497) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دنیا میں کوئی گناہ کیا، اور اسے اس کی سزا مل گئی، تو اللہ تعالیٰ اس بات سے زیادہ انصاف پسند ہے کہ بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو دنیا میں کوئی گناہ کرے، اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے، تو اللہ تعالیٰ کا کرم اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ وہ بندے سے اس بات پر دوبارہ مواخذہ کرے جسے وہ پہلے معاف کر چکا ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الإیمان 11 (2626)، (تحفة الأشراف: 10313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/99، 159) (ضعیف)» (سند میں حجاج بن محمد مصیصی ہیں، جو بغداد آنے کے بعد اختلاط کا شکار ہو گئے، اور ہارون بن عبد اللہ الحمال ان کے شاگرد بغدادی ہیں، اس لئے ان کی روایت حجاج سے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے)
وضاحت: ۱؎: گذشتہ صحیح حدیثوں سے پتلا چلا کہ حدود کے نفاذ سے گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے، محققین علماء کا یہی قول ہے، لیکن بعض علماء نے کہا کہ حد سے گناہ معاف نہیں ہوتا بلکہ گناہ کی معافی کے لئے توبہ درکار ہے اور اس کی کئی دلیلیں ہیں: ایک یہ کہ ڈکیتی میں اللہ تعالی نے فرمایا: «ذلك لهم خزي في الدنيا ولهم في الآخرة عذاب عظيم» (سورة المائدة: 33) یعنی ”حد دنیا کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کو دردناک عذاب ہے“، دوسرے یہ کہ ایک روایت میں ہے: میں نہیں جانتا حدود کفارہ ہیں یا نہیں، تیسرے یہ کہ ابوامیہ مخزومی کی حدیث میں گزرا کہ آپ ﷺ نے جب چور کا ہاتھ کاٹا گیا تو اس سے کہا: ”اللہ سے استغفار کر اور توبہ کر“۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|