(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا سعيد بن يحيى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن إسحاق بن ابي طلحة ، قال: سمعت ابا المنذر مولى ابي ذر يذكر ان ابا امية حدثه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلص فاعترف اعترافا ولم يوجد معه المتاع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما إخالك سرقت؟" قال: بلى، ثم قال:" ما إخالك سرقت؟" قال: بلى، فامر به فقطع، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قل استغفر الله واتوب إليه"، قال: استغفر الله واتوب إليه، قال:" اللهم تب عليه" مرتين. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ يَذْكُرُ أَنَّ أَبَا أُمَيَّةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ فَاعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ الْمَتَاعُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟" قَالَ: بَلَى، ثُمَّ قَالَ:" مَا إِخَالُكَ سَرَقْتَ؟" قَالَ: بَلَى، فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُلْ أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ"، قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ" مَرَّتَيْنِ.
ابوامیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، اس نے اقبال جرم تو کیا لیکن اس کے پاس سامان نہیں ملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی ہے“، اس نے کہا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”میرے خیال میں تم نے چوری نہیں کی“، اس نے کہا: کیوں نہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا، اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو «أستغفر الله وأتوب إليه»”میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں“، تو اس نے کہا: «أستغفر الله وأتوب إليه» تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: «اللهم تب عليه»”اے اللہ تو اس کی توبہ قبول فرما“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود 8 (4380)، سنن النسائی/قطع السارق 3 (4881)، (تحفة الأشراف: 11861)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/293)، سنن الدارمی/الحدود 6 (2349) (ضعیف)» (سند میں ابو المنذر غیر معروف راوی ہیں)