كتاب الحدود کتاب: حدود کے احکام و مسائل 1. بَابُ: لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ فِي ثَلاَثٍ باب: تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اور ناجائز ہے۔
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: ”یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہو جائے)، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 3 (4502)، سنن الترمذی/الفتن 1 (2158)، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) 6 (4024)، (تحفة الأشراف: 9782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/61، 62، 65، 70)، سنن الدارمی/الحدود 1 (2343) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حجت قائم کی ان بے رحم باغیوں پر جو آپ کے قتل کے درپے تھے، لیکن انہوں نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا، اور بڑی بے رحمی کے ساتھ گھر میں گھس کر آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس وقت آپ روزے سے تھے، اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے، «إنا للہ وإنا إلیہ راجعون» ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے، اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے: اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو)“، (تو ان تین صورتوں میں اس کا خون حلال ہے) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 6 (6876)، صحیح مسلم/القسامة 6 (1676)، سنن ابی داود/الحدود 1 (4352)، سنن الترمذی/الدیات 10 (1402)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4021)، (تحفة الأشراف: 9567)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/382، 428، 444، 465)، سنن الدارمی/الحدود 2 (2344) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پس جہاں توحید و رسالت پر ایمان لایا، مسلمان ہو گیا، اب اس کا خون بہانا حرام اور ناجائز ٹھہرا، اگرچہ وہ دوسرے فروعی مسائل میں کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس عمدہ قانون کو چھوڑ کر آپس ہی میں اختلاف و تشدد اور لڑائی جھگڑے کا بازار گرم کیا، اور مسلمان مسلمان ہی کو مارنے لگے، اور ان کے بعض جاہل مولوی فتوی دینے لگے کہ فلاں مسلمان اس مسئلہ میں خلاف کرنے سے کافر اور مرتد اور واجب القتل ہو گیا، حالانکہ صحیح حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو توحید اور رسالت کو مانتا ہو وہ مسلمان ہے، اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں، اب اگر یہ کہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مانعین زکاۃ کے خلاف جہاد کیا تھا، حالانکہ وہ توحید اور رسالت کو مانتے تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ زکاۃ اسلام کا رکن ہے، اور اس کے ساتھ بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ پر صحابہ رضی اللہ عنہ نے اعتراض کیا تھا، جب انہوں نے ان لوگوں سے لڑنا چاہا تھا، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ امام اور خلیفہ وقت تھے، اور ان کی اطاعت بموجب حدیث نبوی واجب تھی اور انہوں نے دلیل لی دوسری احادیث و آیات سے، اب ایسا واجب اطاعت امام اور خلیفہ کون ہے جس کے ماتحت ہو کر تم مسلمانوں سے لڑتے ہو اور ان کو ستاتے ہو، اور بات بات پر مار کاٹ اور زد و کوب اور سب و شتم کا ارتکاب کرتے ہو، بھلا دوران نماز رفع یدین کرنا یا نہ کرنا، آمین زورسے یا آہستہ کہنا، ہاتھ زیر ناف یا ٍسینے پر باندھنا، یہ بھی ایسی چیزیں ہیں جن کے لئے مسلمانوں میں فتنہ و فساد ہو؟ اور ان کی عزت اور جان کو داؤ پر لگایا جائے؟ سنت نبوی پر عمل کرنے والوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے والوں اور ان کو مارنے پیٹنے والوں کا معاملہ قاتلین عثمان کی طرح ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے، اور اس سے لڑنا کفر ہے“، پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس نکتہ کو سمجھیں اور باہم متحد ہو جائیں، مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ جب وہ آپس میں فروعی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے لڑتے جھگڑتے ہیں تو ان کی اس ناسمجھی پر دشمن کتنا ہنستے اور خوش ہوتے ہیں، برخلاف مسلمانوں کے نصاری میں متعدد فرقے ہیں اور ہر ایک دوسرے کو جہنمی خیال کرتا ہے، لیکن عیسی علیہ السلام کے ماننے کی وجہ سے سب ایک رہتے ہیں، اور غیر مذہب والوں سے مقابلہ کرتے وقت سب ایک دوسرے کے مددگار اور معاون بن جاتے ہیں، مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے کہ جو کوئی اللہ کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، محمد ﷺ کو سچا رسول اور آخری نبی جانے اس آدمی کو اپنا مسلمان بھائی سمجھیں، گو فروعی مسائل میں اختلاف باقی رہے۔مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی رسی یعنی کتاب و سنت کی تعلیمات کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور آپس میں اختلاف نہ کریں، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُواْ» (سورة آل عمران: 103) ”سب مل کراللہ کی رسی - یعنی اس کے دین اور کتاب و سنت - کومضبوطی سے تھام لو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو“، نیز رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: «تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما إن تمسكتم بهما كتاب الله و سنة رسوله» ”میں نے تمہارے درمیان دو چیزیں یعنی کتاب اللہ و سنت رسول چھوڑی ہیں جب تک تم ان دونوں پر عمل کرتے رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہو گے“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|