Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الحدود
کتاب: حدود کے احکام و مسائل
1. بَابُ : لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ فِي ثَلاَثٍ
باب: تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اور ناجائز ہے۔
حدیث نمبر: 2533
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَسَمِعَهُمْ وَهُمْ يَذْكُرُونَ الْقَتْلَ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونِي بِالْقَتْلِ فَلِمَ يَقْتُلُونِي وَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا فِي إِحْدَى ثَلَاثٍ: رَجُلٌ زَنَى وَهُوَ مُحْصَنٌ فَرُجِمَ، أَوْ رَجُلٌ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ، أَوْ رَجُلٌ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا مُسْلِمَةً وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ أَسْلَمْتُ.
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہو جائے)، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 3 (4502)، سنن الترمذی/الفتن 1 (2158)، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) 6 (4024)، (تحفة الأشراف: 9782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/61، 62، 65، 70)، سنن الدارمی/الحدود 1 (2343) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ عثمان رضی اللہ عنہ نے حجت قائم کی ان بے رحم باغیوں پر جو آپ کے قتل کے درپے تھے، لیکن انہوں نے اس دلیل کا کوئی جواب نہیں دیا، اور بڑی بے رحمی کے ساتھ گھر میں گھس کر آپ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، اس وقت آپ روزے سے تھے، اور تلاوت قرآن میں مصروف تھے، «إنا للہ وإنا إلیہ راجعون» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2533 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2533  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کا ہے جب مختلف شہروں سے کثیر تعداد میں باغی مدینہ طیبہ آ کرجمع ہوگئے تھے اور وہ حضرت عثمان کو شہید کرنا چاہتے تھے۔
حضرت عثمان آخر تک یہی کوشش کرتے رہے کہ انہیں سمجھا بجھا کر مطمئن کردیا جائے تاکہ وہ بغاوت سے باز آ جائیں اورمدینہ منورہ کی مقدس زمین پرخون ریزی نہ ہو۔
اس موقع پر آپ نے وہ بات فرمائی تھی جو اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔

(2)
مسلمانوں کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

(3)
مذکورہ بالااسباب کے علاوہ ہر قتل ناحق ہے۔
ان صورتوں میں بھی قتل کرنا عام آدمی کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت یا شرعی عدالت ہی کسی کی سزائے موت کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

(4)
زنا کا جرم سنگین ہے۔
اس کے باوجود اگر مجرم غیرشادی شدہ ہے تو اسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی بلکہ سوکوڑے مارنے کی سزا دی جائے اورقاضی مناسب سمجھے تو کوڑوں سزا کے بعد ایک سال کے لیے شہر بدر کر سکتا ہے۔

(5)
شادی شدہ مرد یاعورت زنا کا ارتکاب کرے تو اس کی سزارجم ہے یعنی اسے پتھر مارمار کر ہلاک کر دیا جائے۔

(6)
جو مسلمان اسلام ترک کرکے کوئی دوسرامذہب اختیار کرلے اسے مرتد کہتے ہیں اسکی سزا بھی موت ہے لیکن اگر وہ توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اسے معاف کردیا جائے گا۔
حضرت معاذ بن جبل یمن میں حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی کو گرفتار کرکے رکھا ہوا ہے۔
وجہ دریافت کرنے پرمعلوم ہوا وہ ایک یہودی تھا۔
جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔
حضرت معاذ نے اسے فوری قتل کرنے کا مطالبہ کیا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نےاسے قتل کرا دیا۔ (صیحح البخاري، استتابة المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب حکم المرتد والمرتدة واستتابتھم، حدیث: 2963)
حافظ ابن حجر نے شرح میں مسند احمد کے حوالہ سے یہی واقعہ ذکر کیا ہے۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نےفرمایا:
ہم تقریبا دو مہینے سے اسے اسلام قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں---، (فتح الباري، 343/12)

(7)
اس واقعے سے حضرت عثمان کا عظیم مقام اور عصمت وعفت کے لحاظ سے ان کا اعلیٰ وارفع کردار واضح ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2533   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4024  
´جن گناہوں اور جرائم کی وجہ سے کسی مسلمان کا خون حلال ہو جاتا ہے ان کا بیان۔`
ابوامامہ بن سہل اور عبداللہ بن عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور وہ (اپنے گھر میں) قید تھے۔ ہم جب کسی جگہ سے اندر گھستے تو بلاط ۱؎ والوں کی گفتگو سنتے۔ ایک دن عثمان رضی اللہ عنہ اندر گئے پھر باہر آئے اور بولے: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا: آپ کے لیے تو اللہ کافی ہے۔ وہ بولے: آخر یہ لوگ مجھے کیوں قتل کرنے کے درپہ ہیں؟ حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4024]
اردو حاشہ:
(1) بلاط مسجد نبوی سے باہر ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا جس پر لوگ عموماً بیٹھتے اور باتیں کرتے تھے تاکہ مسجد نبوی کا تقدس بحال رہے۔ اس حدیث میں بلاط والوں سے مراد وہ فسادی لوگ ہیں جو دوسرے علاقوں سے اکٹھے ہو کر خلافت کو مٹانے آئے تھے۔ آخرکار انہوں نے اپنی دھمکیوں پر عمل کر ہی دیا۔ لعنهم اللہ۔
(2) اس حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظیم الشان فضیلت و منقبت کا بیان ہے۔ وہ اس طرح کہ زمانۂ جاہلیت اور زمانۂ اسلام میں ہمیشہ مکارم اخلاق آپ کی فطرت سلیمہ کا جزو لا ینفک رہے۔ آپ ہمیشہ برائی اور بے حیائی سے دور اور کنارہ کش ہی رہے۔
(3) جن لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زیادتی اور سرکشی کرتے ہوئے قتل کیا انہوں نے بہت بڑا ظلم کیا کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایسا کوئی جرم ہی نہیں کیا تھا جس کی بنا پر ایک مسلمان کو قتل کرنا جائز ہوتا ہے۔ رضي اللہ تعالیٰ عنه و أرضاہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4024   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4502  
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟`
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تین باتوں کے بغ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4502]
فوائد ومسائل:
سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان رضی اللہ اسلام سے پہلے ہی پاک طینت تھے، اسلام نے ان کی صالحیت کو اور بھی صیقل کردیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4502