كتاب الكفارات کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل 14. بَابُ: مَنْ وَرَّى فِي يَمِينِهِ باب: جو کوئی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان۔
سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کے ارادے سے نکلے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا، تو لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، آخر میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، تو اس نے انہیں چھوڑ دیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور میں نے آپ کو بتایا کہ لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، اور میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان 8 (3256)، (تحفة الأشراف: 4809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/79) (ضعیف)» (قصہ کے تذکرہ کے ساتھ یہ ضعیف ہے لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم کا اعتبار صرف قسم دلانے والے کی نیت پر ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الأیمان 4 (1653)، سنن ابی داود/الأیمان 7 (3255)، سنن الترمذی/الأحکام 1 (1354)، (تحفة الأشراف: 12826)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/النذور 11 (2394) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گو قسم کھانے والا دوسرا کچھ مطلب رکھ کر قسم کھائے یعنی توریہ کرے تو اس کا توریہ اس کو مفید نہ ہو گا بلکہ جھوٹی قسم کا وبال اس پر ہو گا، اس حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کوئی شخص قسم کھا کر دوسرے کا حق دبانا چاہے اور اگلی حدیث کا محل یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کی ظالم کے ظلم سے جان یا عزت بچانی مقصود ہو، اور دونوں قسموں میں منافات نہ ہو گی۔ امام احمد رحمہ اللہ کا قول اس حدیث کے موافق ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث بھی اس مقام پر محمول ہے کہ معاملات میں آدمی قسم کھائے تو قسم دینے والے کے مطلب پر ہو گی، جیسے اگلی حدیث ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|