كتاب الكفارات کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل 2. بَابُ: النَّهْيِ أَنْ يَحْلِفَ بِغَيْرِ اللَّهِ باب: اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے“، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان 4 (6647)، صحیح مسلم/الأیمان والنذور5 (1646)، سنن النسائی/الأیمان والنذور 4 (3798)، سنن ابی داود/الأیمان والنذور 5 (3250)، (تحفة الأشراف: 10518)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأیمان 8 (1533)، مسند احمد (2/11، 34، 69، 87، 125، 142) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر جو کوئی قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ طاغوتوں (بتوں) کی، اور نہ اپنے باپ دادا کی قسم کھاؤ“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الایمان 2 (1648)، سنن النسائی/الأیمان 9 (3805)، (تحفة الأشراف: 9697)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/62) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے: ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم 2 (4860)، الادب 74 (6107)، الاستئذان 52 (6301)، الأیمان 5 (6650)، صحیح مسلم/الأیمان 2 (1647)، سنن ابی داود/الایمان 4 (2347)، سنن الترمذی/الأیمان 17 (1545)، سنن النسائی/الأیمان 10 (3806)، (تحفة الأشراف: 12276)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/309) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ”لات“ اور ”عزی“ دو بڑے بت تھے جن کی زمانہ جاہلیت میں عرب عبادت کرتے تھے، واضح رہے اگر بے اختیار عادت کے طور پر ان کا نام نکل جائے اور دل میں ان کی کوئی تعظیم نہ ہو تو آدمی کافر نہ ہو گا، اگر تعظیم کی نیت سے کہا تو وہ کافر و مرتد ہے، اس پر دوبارہ اسلام لانا واجب ہے (لمعات التنقیح)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لات اور عزیٰ کی قسم کھا لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم «لا إله إلا الله وحده لا شريك له» ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اس کا کوئی شریک نہیں“، پھر اپنے بائیں طرف تین بار تھو تھو کرو، اور «اعوذ باللہ» کہو ”میں شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں“ پھر ایسی قسم نہ کھانا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الأیمان والنذور 11 (3807)، (تحفة الأشراف: 3938)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/183) (ضعیف) (سند میں ابو اسحاق مختلط ومدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ملاحظہ ہو: إلارواء: 8/192)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے اور اوپر کی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ اگر غیر اللہ کی قسم اس کو معظم سمجھ کر کھائے تو آدمی کافر ہو جاتا ہے، لیکن معظم سمجھنے سے کیا مراد ہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعضوں نے کہا: ان کو اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر سمجھے، لیکن ایسا تو کفار و مشرکین بھی نہیں سمجھتے تھے، وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اور آسمان اور زمین کا وہی خالق ہے جیسے اس آیت میں ہے: «وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ» (سورة لقمان: 25) اور اس آیت میں: «مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى» (سورة الزمر:3) یعنی ہم بتوں کو اس لئے پوجتے ہیں تا کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کر دیں، اور یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور شرک کا معاملہ بہت بڑا ہے، شرک ایسا گناہ ہے جو کبھی نہیں بخشا جائے گا، پس ہر مسلمان کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے، شرک یہ ہے کہ جب اللہ کے علاوہ کسی کو کوئی اس لائق سمجھے کہ وہ بغیر اللہ کی مشیت اور ارادے کے کوئی برائی یا بھلائی کا کام کر سکتا ہے، یا اس کا کچھ زور اللہ تعالیٰ پر ہے، معاذ اللہ، دنیا کے بادشاہوں کی طرح جیسے وہ اپنے نائبوں کا لحاظ رکھتے ہیں، یہ ڈر کر کہ اگر وہ ناراض ہو جائیں گے تو ان کے کارخانہ میں خلل ہو جائے گا۔ یا وہ اللہ کی طرح ہر پکارنے والے کی پکار سن لیتا ہے،یا نزدیک ہو یا دور، یا ہر مشکل کے وقت نزدیک ہو یا دور کام آ سکتا ہے، یا ہر بات دیکھتا اور سنتا ہے، تو اس نے شرک کیا، گو وہ اس کو اللہ کے برابر نہ سمجھے، معظم سمجھنے کے یہی معنی ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر اللہ کی عظمت بالکل نہ کرے، انبیاء ورسل، فرشتوں اور اولیاء وصلحاء کی تعظیم ہماری شریعت میں ہے، مگر یہ تعظیم یہی ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کو اللہ کا نیک بندہ سمجھا جائے، مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کا رتی بھر کام نکال سکتے ہیں، یا اللہ تعالیٰ کے حکم میں کچھ چوں چرا کر سکتے ہیں، یا ان کا کچھ زور- معاذ اللہ- اللہ تعالیٰ پر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے رتی برابر بھی ڈر و خوف نہیں ہے۔ اور یہ سب اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف متحد ہو جائیں تو وہ ایک لحظہ میں ان سب کو تباہ و برباد کر سکتا ہے، اور ان سب کے خلاف ہو جانے سے اس کا ذرہ برابر بھی کوئی کام متاثر نہیں ہو سکتا، یہ موحدوں کا اعتقاد ہے، پس موحد جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو یقینا کہا جائے گا کہ اس کی قسم لغو اور عادت کے طور پر ہے کیونکہ ممکن نہیں کہ موحد غیر اللہ میں سے کسی میں کچھ بالاستقلال قدرت یا اختیار سمجھے۔ جو شرکیہ افعال کیا کرتا ہے لیکن نام کا مسلمان ہے وہ جب غیر اللہ کی قسم کھائے گا تو شرک کا گمان اس کی طرف اور زیادہ قوی ہو گا، اور بہت مسلمان ایسے ہیں کہ اللہ کی قسم کہو تو وہ سو کھا ڈالیں لیکن کیا ممکن ہے کہ اپنے پیر مرشد یا مدار یا سالار یا غوث کی جھوٹی قسم کھائیں، ان کے مشرک ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں ہے، اب یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جو چیزیں ہماری شریعت میں بالکل لائق تعظیم نہیں ہیں بلکہ ان کی تحقیر اور توڑ ڈالنے کا حکم ہے، جیسے بت،اور تعزیہ والے جھنڈے وغیرہ ان کی تو ذرا سی تعظیم بھی کفر ہے، اس لیے کہ ان کی تعظیم مشرکین کی خاص نشانی ہے مثلاً ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی قبر یا کسی ولی یا نبی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو، اور دوسرا شخص کسی بت کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو تو دوسرے شخص کے کفر میں کوئی شبہ نہ رہے گا، لیکن پہلے شخص کی نیت معلوم کی جائے گی، اگر عبادت کی نیت سے اس نے ایسا کیا تو وہ بھی کافر ہو جائے گا، اور جو صرف ادب اور تعظیم میں ایسا کیا لیکن عقیدہ اس کا توحید کا ہے، تو وہ کافر نہ ہو گا مگر شرع کے خلاف کرنے پر اس کو اس سے منع کیا جائے گا۔ اکثر علماء محققین نے اس فرق کو مانا ہے، اور بعضوں نے اس باب میں دونوں کا حکم ایک سا رکھا ہے جو فعل ایک کے ساتھ کفر ہے وہ دوسرے کے ساتھ بھی کفر ہے، مثلاً بت کا سجدہ بھی کفرہے اور قبر کا سجدہ بھی کفر ہے البتہ فرق یہ ہے کہ بت کی اہانت و تذلیل اور اس کے توڑنے کا حکم ہے، اور مومنین صالحین کی قبریں کھودنے کا حکم نہیں ہے اور یہ فرقہ کہتا ہے کہ انبیاء،اولیاء، ملائکہ اور شعائر اللہ کی تعظیم درحقیقت اللہ کی ہی تعظیم ہے کیونکہ اللہ ہی کے حکم سے اللہ کا مقبول بندہ سمجھ کر اس کی تعظیم کرتے ہیں، پس یہ غیر اللہ کی تعظیم نہیں ہوئی بلکہ صلحاء کی تعظیم ہوئی، وہ اس میں مستثنیٰ رہے گی، اس لیے کہ وہ اللہ ہی کی تعظیم ہے۔ اس فائدہ کو یاد رکھنا چاہئے اور ممکنہ حد تک جس کام میں شرک شک و شبہ بھی ہو اسے باز رہنا چاہئے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|