كتاب الكفارات کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل 6. بَابُ: الاِسْتِثْنَاءِ فِي الْيَمِينِ باب: قسم میں ان شاءاللہ کہنے کے حکم کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی، اور «إن شاء الله» کہا، تو اس کا «إن شاء الله» کہنا اسے فائدہ دے گا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأیمان والنذور 7 (1532)، سنن النسائی/الإیمان والنذور 42 (3886)، (تحفة الأشراف: 13523)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/309) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: فائدہ یہ ہو گا کہ اگر قسم کے خلاف بھی کرے تو کفارہ لازم نہ ہو گا، اور آدمی جھوٹا نہ ہو گا، اس لئے کہ اس کی قسم اللہ تعالی ہی کی مشیت پر معلق تھی، معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ایسا نہ چاہا تو اس نے قسم کے خلاف عمل کیا، یہ قسم کے کفارے سے بچنے کا عمدہ طریقہ ہے، صحیحین میں ہے کہ سلیمان بن داود (علیہما الصلاۃ والسلام) نے فرمایا: میں آج کی رات ستر عورتوں کے پاس جاؤں گا، اخیر حدیث تک، اس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو ان کی بات غلط نہ ہوتی“، اور جمہور کا مذہب ہے کہ جب قسم میں «إن شاء الله» لگا دے تو وہ منعقد نہ ہو گی، یعنی توڑنے میں کفارہ واجب نہ ہو گا، لیکن شرط یہ ہے کہ «إن شاء الله» قسم کے ساتھ ہی کہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قسم کھائی، اور «إن شاء الله» کہا، تو وہ چاہے قسم کے خلاف کرے، یا قسم کے موافق، حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان والنذور 11 (3261، 3262)، سنن الترمذی/الأیمان والنذور 7 (1531)، سنن النسائی/الأیمان 18 (3824)، 39 (3859)، (تحفة الأشراف: 7517)، موطا امام مالک/النذ ور 6 (10)، مسند احمد (2/6، 10، 48، 153)، سنن الدارمی/النذور 7 (2388) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے قسم کھائی اور «إن شاء الله» کہا، وہ حانث یعنی قسم توڑنے والا نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 7517) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|