سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کے ارادے سے نکلے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی تھے، ان کو ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا، تو لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، آخر میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، تو اس نے انہیں چھوڑ دیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور میں نے آپ کو بتایا کہ لوگوں نے قسم کھانے میں حرج محسوس کیا، اور میں نے قسم کھائی کہ یہ میرا بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے سچ کہا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان 8 (3256)، (تحفة الأشراف: 4809)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/79) (ضعیف)» (قصہ کے تذکرہ کے ساتھ یہ ضعیف ہے لیکن مرفوع حدیث صحیح ہے)
It was narrated that Suwaid bin Hanzalah said:
"We went out looking for the Messenger of Allah (ﷺ) and Wa'il bin Hujr was with us. An enemy of his seized him and the people were reluctant to swear an oath but I swore that he was my brother, so they set him free. We came to the Messenger of Allah (ﷺ) and I told him that the people had been reluctant to swear an oath, but I had sworn that he was my brother. He said: 'You told the truth. The Muslim is the brother of his fellow Muslim.' "
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2119
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) توریہ کا مطلب ہے ایسی بات کرنا جس کے دو مطلب ہوں مخاطب اس کا کچھ اور مطلب سمجھے اور بات کرنے والا دوسرا مطلب مراد لے رہا ہو تاکہ جھوٹ بھی نہ ہو اور جان بھی بچ جائے۔
(2) جب جان، مال یا آبرو کو خطرہ ہو تو دشمن سے بچنے کے لیے توریہ کرنا جائز ہے۔
(3) دوسرے مسلمان کی جان بچانے کے لیے بھی توریہ کرنا جائز ہے۔
(4) حضرت سوید نے یہ قسم نہیں کھائی کہ یہ وائل بن حجر نہیں بلکہ بھائی ہونے کی قسم کھائی۔ دشمن نے انہیں سوید کا سگا بھائی سمجھا، اس لیے چھوڑ دیا جبکہ حضرت سوید کا مطلب یہ تھا کہ یہ میرا دینی بھائی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2119
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3256
´قسم کھانے میں توریہ کرنا یعنی اصل بات چھپا کر دوسری بات ظاہر کرنا کیسا ہے؟` سوید بن حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نکلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ کر رہے تھے، اور ہمارے ساتھ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہیں ان کے ایک دشمن نے پکڑ لیا تو اور ساتھیوں نے انہیں جھوٹی قسم کھا کر چھڑا لینے کو برا سمجھا (لیکن) میں نے قسم کھا لی کہ وہ میرا بھائی ہے تو اس نے انہیں آنے دیا، پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ اور لوگوں نے تو قسم کھانے میں حرج و قباحت سمجھی، اور میں نے قسم کھا لی کہ یہ میرے بھائی ہیں، آپ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3256]
فوائد ومسائل: دشمن کے مقابلے میں اشارے اور توریے سے قسم کھاناجائز ہے۔ اور (ان في المعاربض لمندوحة عن الكذب (السنن الكبري للبهقي 199/10) اشارے میں جھوٹ سے بچائو ممکن ہوتا ہے۔ کا یہی مفہوم ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3256