كتاب الكفارات کتاب: قسم اور کفاروں کے احکام و مسائل 19. بَابُ: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ باب: جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ نذر ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا کہ میری ماں کے ذمہ ایک نذر تھی وہ مر گئیں، اور اس کو ادا نہ کر سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کی جانب سے اسے پوری کر دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 19 (2761)، الأیمان والنذور30 (6698)، الحیل 3 (6959)، صحیح مسلم/النذور1 (1638)، سنن ابی داود/الأیمان 25 (3307)، سنن الترمذی/الأیمان 19 (1546)، سنن النسائی/الوصایا 8 (3686)، الأیمان 34 (3848، 3849، 3850)، (تحفة الأشراف: 5835)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/النذور1 (1)، مسند احمد (1/219، 329) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور اس نے کہا: میری ماں کا انتقال ہو گیا، اور ان کے ذمہ روزوں کی نذر تھی، اور وہ اس کی ادائیگی سے پہلے وفات پا گئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا ولی ان کی جانب سے روزے رکھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2554) (صحیح)» (سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: 2077)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ ہو یا نماز اس کا ولی رکھ سکتا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کو جس کی ماں نے قبا میں نماز پڑھنے کی نذر مانی تھی اور وہ مر گئی تھی، حکم دیا کہ تم اس کی طرف سے پڑھ لو۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|