كتاب الطلاق کتاب: طلاق کے احکام و مسائل 16. بَابُ: طَلاَقِ الْمُكْرَهِ وَالنَّاسِي باب: زبردستی یا بھول سے دی گئی طلاق کے حکم کا بیان۔
ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک، اور جس کام پہ تم مجبور کر دیئے جاؤ معاف کر دیا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11922) (صحیح)» (سند میں ابو بکرالہذلی ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: جب اللہ تعالی نے اس کو معاف کیا، اور دنیا کے احکام میں معافی ہو گئی، تو جب اس نے بھولے سے طلاق دی یا مجبوری کی حالت میں تو طلاق نہ پڑے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جو ان کے دلوں میں وسوسے آتے ہیں معاف کر دیا ہے جب تک کہ اس پہ عمل نہ کریں، یا نہ بولیں، اور اسی طرح ان کاموں سے بھی انہیں معاف کر دیا ہے جس پر وہ مجبور کر دیئے جائیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظرحدیث رقم: 2040 (صحیح)» (حدیث میں «وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ» کا لفظ شاذ ہے، لیکن اگلی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں یہ لفظ ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎: شیخ عبدالحق محدث رحمہ اللہ لمعات التنقیح میں فرماتے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اسی حدیث کی رو سے یہ حکم دیا ہے کہ جس پر زبردستی کی جائے اس کی طلاق اور عتاق (آزادی) نہ پڑے گی اور ہمارے مذہب (حنفی) میں قیاس کی رو سے ہزل پر طلاق اور عتاق دونوں پڑ جائے گی تو جو عقد ہزل میں نافذ ہو جاتا ہے۔ وہ اکراہ (زبردستی) میں بھی نافذ ہو جائے گا، مولانا وحید الزمان صاحب اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ حنفیہ نے قیاس کو حدیث پر مقدم رکھا، اور نہ صرف اس حدیث پر بلکہ ابوذر، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث پر بھی جو اوپر گزریں، اور یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حنفیہ نے جو اصول بنائے ہیں کہ خبر واحد، مرسل حدیث اور ضعیف حدیث بلکہ صحابی کا قول بھی قیاس پر مقدم ہے، یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں، سیکڑوں مسائل میں انہوں نے قیاس کو احادیث صحیحہ پر مقدم رکھا ہے، اور یقیناً یہ متاخرین حنفیہ کا فعل ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس سے بالکل بری تھے، جیسے انہوں نے نبیذ سے وضو اور نماز میں قہقہہ سے وضو ٹوٹ جانے میں ضعیف حدیث کی وجہ سے قیاس جلی کو ترک کر دیا ہے، تو بھلا صحیح حدیث کے خلاف وہ کیونکر اپنا قیاس قائم رکھتے، اور محدثین نے باسناد مسلسل امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حدیث پر عمل لازم ہے، اور میرا قول حدیث کی وجہ سے چھوڑ دینا، امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ جب تک لوگ علم حدیث حاصل کرتے رہیں گے اچھے رہیں گے، اور جب حدیث چھوڑ دیں گے تو بگڑ جائیں گے، لیکن افسوس ہے کہ حنفیہ نے اس باب میں اپنے امام کی وصیت پر عمل نہیں کیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله وما استكرهوا عليه فإنه شاذ وإنما صح في حديث ابن عباس
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی کرائے گئے کام معاف کر دیئے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5905، ومصباح الزجاجة: 722) (صحیح) (ملاحظہ ہو: الإرواء: 82)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زبردستی کی صورت میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ عتاق (غلامی سے آزادی)“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطلاق 8 (2193)، (تحفة الأشراف: 17853)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/276) (حسن)» (سند میں عبید بن صالح ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ حدیث حسن ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: 1/2047 و صحیح أبی داود: 1903)
قال الشيخ الألباني: حسن
|